Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں انسانی بحران: اٹلی جی 20 افغان سمٹ کی میزبانی کرے گا

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے نتیجے میں ہونے والی انسانی تباہی پر بات کرنے کے لیے اطالوی وزیر اعظم ماریو دراگی 20 بڑی معیشتوں کے ایک مخصوص اجلاس کی میزبانی کریں گے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، پہلے سے ہی بھوک اور غربت سے دو چار افغانستان کی معیشت زبو حالی کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مہاجرین کی بڑی تعداد کے ابھرنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ویڈیو کانفرنس میں امداد، سکیورٹی خدشات اور افغانستان میں موجود مغرب کے حامی افغان شہریوں کے ملک سے باحفاظت نکلنے کے طریقوں پر بات چیت ہوگی۔
جی 20 ایجنڈا کی معلومات رکھنے والے ایک افسر کا کہنا تھا کہ چونکہ موسمِ سرما قریب ہے، آسانی سے متاثر ہونے والے افراد، جیسے خواتین اور بچوں کے لیے فوری امداد ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرڑی جنرل انتونیو گوتریس بھی اجلاس میں شرکت کریں گے جس سے اقوام متحدہ کا اس بحران میں اہم کردار اُجاگر ہوگا۔ اقوام متحدہ کا افغانستان میں مسئلے کے حل کے لیے کردار اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ کئی ممالک  طالبان کے ساتھ براہ راست روابط نہیں رکھنا چاہتے۔
جی 20 اجلاس کی سربراہی اس بار اٹلی کے پاس ہے۔ اٹلی نےاس بار کے اجلاس کے لیے بہت محنت کی ہے کیونکہ کابل کے امریکی فوج کے انخلا کے بعد جی 20 ہی میں افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے مختلف نظریات پائے جا رہے ہیں۔
اس معاملے پر معلومات رکھنے والے ایک متعلقہ سفارتی ذریعے کا کہنا تھا کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ مغربی ممالک طالبان کے ملک چلانے کے طریقے میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں مثلاً ان کے خواتین کے ساتھ رویوں پر۔ ’جبکہ دوسری جانب چین اور روس کی خارجہ پالیسی مداخلت پر مبنی نہیں ہے۔‘
چین نے عوامی سطح پر مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان پر لگائی گئی اقتصادی پابندیاں ہٹا دی جایئں اور افغانستان کے اربوں ڈالر کے بین الاقوامی اثاثے غیر منجمد کیے جائیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس پر منگل کے اجلاس میں بات چیت ہوگی یا نہیں۔

چین نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان پر لگائی گئی اقتصادی پابندیاں ہٹا دی جایئں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

امریکہ صدر جو بائیڈن، انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور یورپ کے جی 20 سربراہان کی اجلاس میں شرکت متوقع ہے۔ تاہم چینی میڈیا کے مطابق چین کے صدر شی جنپنگ اجلاس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
یہ بھی واضح نہیں کہ اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن موجود ہوں گے یا نہیں۔  
ایک سفارتی ذریعے کے مطابق افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کو اس آن لائن اجلاس کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ تاہم قطر اجلاس میں شریک ہوگا۔
یاد رہے کہ قطر نے طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ آن لائن اجلاس ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کچھ روز قبل امریکہ اور طالبان کے سینیئر افسران طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد قطر میں پہلی بار آمنے سامنے ملے تھے۔
منگل کے اجلاس کے کچھ دنوں بعد ہی جی 20 سربراہان روم میں 30 اور 31 اکتوبر کو باقائدہ اجلاس کے لیے ملاقات کریں گے۔ اس اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں، عالمی معیشت کی بحالی، غذائیت میں کمی اور کورونا وائرس کی وبا پر توجہ دی جائے گی۔

افغان وزیر کی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات کی اپیل

افغانستان کے وزیر خارجہ نے دنیا بھر کے ممالک سے اچھے تعلقات کی اپیل کی ہے۔ تاہم عالمی مطالبات کے باوجود انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق کوئی وعدہ نہیں کیا۔
طالبان کی افغانستان میں نئی حکومت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ملک اقتصادی بحران کا شکار نہیں بنے۔
پیر کو دوحہ انسٹیٹیوت فار گریجویٹ سٹڈیز کی ایک تقریب میں بات کرتے ہوئے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ تعاون کرے۔ اس سے ہم عدم تحفظ کو ختم کر سکیں گے اور دنیا کے ساتھ مثبت طریقے سے روابط قائم کر سکیں گے۔
اب تک طالبان نے لڑکیوں کے سکول واپس جانے پر کوئی بات نہیں کی ہے، جو کہ عالمی برادری کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ گذشتہ ماہ افغانستان میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ چھٹی جماعت کے بعد کی کلاسوں میں صرف لڑکے سکول واپس جائیں گے۔

شیئر: