Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہیبت خان نے 80 سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کیسے کی؟

’ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو اور صرف ڈگری، ملازمت یا کسی منافع کے لیے نہیں بلکہ شعور و آگہی کے لیے‘
عمر سمیت کسی بھی قید و شرط کے بغیر تعلیم کے حصول کی اہمیت پر مبنی ہیبت خان حلیمی کا یہ قول محض زبانی کلامی نہیں بلکہ 80 سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر کے انہوں نے اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے۔
ضعیف العمری، بیماری، کمزوری اور تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اعزاز اپنے نام کرنے والے وہ بلوچستان ہی نہیں پاکستان کے معمر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔
گذشتہ ہفتے بلوچستان یونیورسٹی کے کانووکیشن میں ڈاکٹر حلیمی ڈگری لینے سٹیج پر آئے تو بھی انہیں دو افراد کی مدد اور لاٹھی کا سہارا لینا پڑا۔ ان کی عمر، عزم و حوصلے کو دیکھ کر گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا اور شرکا حیران ہوئے اور داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ گورنر نے انہیں گلے لگایا اور دونوں ہاتھوں سے سلامی بھی پیش کی۔
ہیبت خان حلیمی کا تعلق بلوچستان کے ضلع مستونگ اور سمالانی قبیلے سے ہے۔ 40 سال کی پولیس سروس کے بعد 2005 میں بطور ایس پی ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے سال ہی ایم فل میں داخلہ لیا اور2011 میں ڈگری مکمل کی اور اس کے بعد 2019 میں پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی۔ کورونا کی وجہ سے یونیورسٹی کا کانووکیشن دو سال تاخیر سے ہوا۔
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے ڈین پروفیسر عادل زمان کاسی نے بتایا کہ ’ہیبت خان حلیمی ضعیف ہونے کے باوجود بہت پرعزم تھے، ہمیں نہیں لگتا تھا کہ کہ وہ پی ایچ ڈی مکمل کرلیں گے مگر وہ آخر تک اسی جوش و جذبے سے لگے رہے اور اپنے عزم کی تکمیل میں کامیاب ہو گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے شعبے کے وہ سب سے معمر ترین رکن تھے مگر اس کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ دوسروں کے لیے مثال بن گئے ہیں۔‘

ہیبت خان حلیمی کی تحقیق بلوچستان میں لیویز فورس یعنی ٹریڈیشنل پولیسنگ اور ماڈرن پولیسنگ پر ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ہیبت خان حلیمی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1965 میں جب وہ بطور سپاہی پولیس میں بھرتی ہوئے تو ان کے پاس میٹرک کی ڈگری بھی نہیں تھی۔ میٹرک سے ماسٹرز تک کی تعلیم انہوں نے ملازمت کے دوران ہی حاصل کی۔
میں نے نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ فرائض تندہی سے انجام دیے بلکہ تعلیم کے حصول پر بھی توجہ دی اور اس بنا پر نچلے درجے کی ملازمت سے ترقی کرتے کرتے افسر کے عہدے تک پہنچا۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اچھی کارکردگی کی بنا پر سپاہی سے حوالدار، اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر اور انسپکٹر تو بن گئے تھے لیکن علم کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا، جب تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے 1975 میں ڈی ایس پی کی آسامی کے لیے امتحان میں شریک نہ ہوسکے۔
ان کے مطابق ’تب میں نے تہیہ کیا کہ میں تعلیم حاصل کروں گا اور اپنی اہلیت بڑھاؤں گا۔ اس کے بعد پھر جو میں نے پڑھائی شروع کی تو پی ایچ ڈی تک میں نے بریک نہیں لگائی۔
ڈاکٹر ہیبت خان حلیمی نے بتایا کہ اگلے ہی سال یعنی 1976 میں میٹرک کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے، اس کے دو سال بعد ایف اے اور پھر بی اے کیا۔ 1984 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد 1989 میں بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا اور پورے صوبے میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
’1985 میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے ڈی ایس پی بن گیا۔ 2000 میں ایس پی کے عہدے پر ترقی ملی اور سپیشل برانچ، کرائم برانچ اور سی آئی ڈی سمیت پولیس کے مختلف شعبوں میں اہم عہدوں پر کام کیا۔‘

ہیبت خان 40 سال کی پولیس سروس کے بعد 2005 میں بطور ایس پی ریٹائرڈ ہوئے تھے (فوٹو: اردو نیوز)

حلیمی کے مطابق ’جیسے جیسے میں امتحانات پاس کرتا رہا تعلیم کا شوق اور مطالعے کی عادت مزید بڑھتی گئی۔ پولیس ڈسپلنڈ فورس ہے۔ دوران ملازمت ہمیشہ ڈسپلن اور وقت کی پابندی کی۔ زندگی نظم و ضبط سے گزارنے کا فائدہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے میں بھی ہوا۔‘
اب 80 سال کی عمر میں بھی میں روزانہ تین گھنٹے سے زیادہ وقت مطالعے میں صرف کرتا ہوں گھر میں اس مقصد کے لیے لائبریری بنا رکھی ہے جس میں کئی نایاب کتب بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پوتے پوتیوں نواسہ نواسیوں کو بھی پڑھاتا ہوں کیونکہ نئی نسل کو کچھ سکھانا ہے تو پہلے خود مثال بننا پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پولیس ٹریننگ کالج میں زیر تربیت پولیس اہلکاروں و افسران کو چیف لا انسٹرکٹر کے طور پر اور پھر جوڈیشل اکیڈمی میں مجسٹریٹس کو بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ پولیس ٹریننگ کالج میں پڑھانے کے دوران جرائم سے متعلق کتاب بھی لکھی جو آج کل بلوچستان یونیورسٹی کے سوشیالوجی سمیت مختلف شعبوں میں پڑھائی بھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر حلیمی نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کا خیال انہیں اس وقت آیا جب وہ جرائم سے متعلق اپنی کتاب کا مسودہ لے کر بلوچستان یونیورسٹی کے اُس وقت کے وائس چانسلر غلام محمد تاج کے پاس گئے تاکہ وہ اس پر اپنا تبصرہ لکھ سکیں۔
کتاب پڑھنے کے بعد انہوں نے جامعہ بلوچستان میں کریمینالوجی کا شعبہ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور جرائم کی تحقیق اور پولیس میں وسیع تجربے کے پیش نظر مدد مانگی۔
حلیمی کہتے ہیں ’میں ریٹائرڈ ہونے والا تھا، اس لیے حامی بھری۔ میں نے سوچا کہ چونکہ میری تعلیم خود ایم اے ہے جب شعبہ کھل جائے گا تو میں ایم اے کے طالب علموں کو کیسے پڑھاؤں گا؟ اس لیے تعلیمی قابلیت میں اضافے کے لیے 2006 میں ایم فل میں داخلہ لیا اور2011 میں ایم فل مکمل کر لیا اور اس کے بعد 2019 میں پی ایچ ڈی بھی مکمل کرلی۔
’میری خواہش تھی کہ میں پی ایچ ڈی مکمل کرکے کریمینالوجی ڈیپارٹمنٹ میں بطور استاد پڑھاتا لیکن وائس چانسلر کی تبدیلی کے بعد کریمینالوجی کا نیا شعبہ کھولنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی مگر میں نے اپنی پڑھائی نہیں چھوڑی اور دلجمعی سے پڑھتا رہا کیونکہ میں تعلیم کسی ڈگری، ملازمت یا منافع کے لیے حاصل نہیں کر رہا تھا۔ ایک تو یہ میرا شوق تھا اور دوسرا میں اپنے تجربے اور علم سے اپنی آئندہ آنے والی نسل کو فائدہ دینا چاہتا تھا اس لیے میں نے اپنی تحقیق پر خاص توجہ دی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میرا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ اتنا ضخیم ہے کہ اسے بمشکل ایک سے دو ماہ میں پڑھا جا سکتا ہے، اسے مکمل کرنے اور لکھنے میں نو سال لگائے اس میں 40 سالہ پولیس سروس کے تجربے کا نچوڑ بھی شامل ہے۔ مختلف موضوعات پر کئی ملکی و غیر ملکی مصنفین کی دو سو کتابیں پڑھیں تب جاکر تحقیق مکمل کی۔
ہیبت خان حلیمی کی تحقیق بلوچستان میں لیویز فورس یعنی ٹریڈیشنل پولیسنگ اور ماڈرن پولیسنگ پر ہے۔
انہوں نے دونوں فورسز کا تقابل، اشتراک عمل اور اس کے بلوچستان کے امن وامان پر اثرات کو موضوع بنایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے 90 فیصد علاقے میں لیویز فورس کی عملداری ہے۔ یہ ماضی کی قبائلی فورس ہے جو انگریز حکومت نے بنائی تھی۔ یہ فورس جرائم پیشہ عناصر سے فوجداری قوانین کے بجائے قبائلی اثر و رسوخ کے ذریعے نمٹتی تھی۔ یہ تجربہ اس دور میں کامیاب رہا لیکن آج کی لیویز فورس کی نئی ضروریات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس تحقیق میں پولیس اور لیویز کی خامیوں کی نشاندہی اور ان کے ازالے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔
ہیبت خان حلیمی کے پی ایچ ڈی کے کو سپروائزر ڈاکٹر قادر بڑیچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ کورس ورک کے دوران ہیبت خان حلیمی باقاعدگی اور بہت شوق سے کلاسز لیتے تھے ہفتے میں تین کلاسز ہوتی تھی اور وہ کبھی کلاس مس نہیں کرتے تھے۔
ڈاکٹر قادر بڑیچ کے مطابق پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کو پاکستان ہی نہیں بیرون ملک پروفیسرز نے بھی سراہا ہے۔ ان کا تحقیقی کام بلوچستان کی نئی نسل خاص طور پر نئے آنے والے پولیس افسران، کریمینالوجی، سوشیالوجی اور قانون کے طلبہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس تحقیق میں ان کا وسیع تجربہ بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضعیف العمری کے باعث پی ایچ ڈی کی ڈگری ہیبت خان حلیمی کو کوئی ذاتی فائدہ نہیں دے سکتی مگر ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے علم اور تجربے کو نئی نسل کے ساتھ شیئر کریں۔ ان کا یہ جذبہ قابل قدر ہے۔

شیئر: