دس برس میں تیسری بار نایاب آرہ مچھلی پاکستانی ماہی گیروں کے جال میں
پاکستان اور ایران کی سمندری سرحد پرلمبی کنگھی والی نایاب آرہ مچھلی ماہی گیروں کے جال میں پھنس گئی ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) کے مطابق 29 اکتوبر کو جیوانی کے ساحل پر ماہی گیروں نے نایاب نسل کی آرہ مچھلی کے جال میں آنے کی اطلاع دی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آرہ مچھلی نایاب آبی حیات ہے، اس کی نسل پچھلے کئی برسوں سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تکنیکی مشیر معظم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ مچھلی کی دریافت اس بات کی عکاس ہے کہ یہ نایاب مچھلی اب بھی پاکستانی سمندروں میں پائی جاتی ہے، اس کی نسل کی بقا کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں 70 اور 80 کی دہائی میں آرہ مچھلی کی تین اقسام وافر تعداد میں پائی جاتی تھیں: لمبی کنگھی والی آرہ مچھلی، لمبے دانت والی اور چاقو دانت والی آرہ مچھلی۔
مقامی انہیں کھایا جاتا تھا اور نمک میں محفوظ کرکے سری لنکا درآمد کیا جاتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1950 سے پلاسٹک کے جالوں کے استعمال کے باعث دیگر نایاب آبی حیات سمیت آرہ مچھلی کی نسل معدومیت کا شکار ہوگئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پچھلے 10 برسوں میں اس نایاب آرہ مچھلی کی موجودگی کے صرف تین شواہد سامنے آئے ہیں۔
آٹھ برس قبل، 2013 میں، دریائے سندھ کے کریک پر ماہی گیروں نے آرہ مچھلی کے جال میں پھنسنے کی اطلاع دی تھی۔
عالمی قوانین کے تحت سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے 2016 میں آرہ مچھلی کے شکار اور تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔