بلوچستان کی 19 رکنی نئی کابینہ میں خواتین اور اقلیتی رکن نظر انداز
بلوچستان کی 19 رکنی نئی کابینہ میں خواتین اور اقلیتی رکن نظر انداز
منگل 9 نومبر 2021 8:32
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں اکثر پرانے چہرے ہیں جو جام کمال کی کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ فوٹو: بشریٰ رند ٹوئٹر
بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد نئی کابینہ بھی تشکیل دے دی گئی۔ وزرا نے اتوار کو گورنر ہاؤس کوئٹہ میں عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔ 19 رکنی کابینہ میں 14 وزراء اور پانچ مشیر شامل ہیں تاہم کوئی خاتون اور اقلیتی رکن نئی کابینہ کا حصہ نہیں۔
عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں اکثر پرانے چہرے ہیں جو جام کمال کی کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ اقلیت اور خواتین کو نمائندگی نہ دینے پر بلوچستان کی خواتین سیاسی رہنماؤں بالخصوص حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی خواتین ارکان اسمبلی نے کھل کر تنقید کی ہے۔
ماہ جبین شیران نے اپنے ٹوئٹر پر طنزیہ انداز میں ’میل ڈومینیٹڈ کابینہ‘ کو مبارک باد دی ہے اور لکھا ہے کہ 14 وزرا اور 5 مشیروں میں ایک بھی خاتون شامل نہیں۔ انہوں نے اس عمل کو پدر شاہی کی واضح تصویر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عوامی اور سیاسی امور میں خواتین کی شرکت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ یہ بلوچستان کی سیاست کی روایت رہی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی بشریٰ رند نے بھی نئی کابینہ میں خواتین کو نمائندگی نہ ملنے پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر کابینہ ارکان کی حلف برداری کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ مرد صرف خواتین کو با اختیار بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں خواتین کو با اختیار بنانے کا سال تھا، اس مردانہ غلبے والے معاشرے میں بلوچستان پھلے پھولے گا۔‘
بشریٰ رند نے کابینہ کی حلف برداری سے ایک روز قبل بلوچستان عوامی پارٹی کی وومن آرگنائزر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اس عمل کی بظاہر وجہ کابینہ میں نمائندگی نہ ملنا نظر آتی ہے مگر بشریٰ رند نے رابطہ کرنے کے باوجود استعفے کی وجہ نہیں بتائی۔
نئی کابینہ میں کون کون شامل ہیں؟
عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں 14 وزرا میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار عبد الرحمان کھیتران، سکندر علی عمرانی، اکبر آسکانی، نور محمد دمڑ، نوابزادہ طارق مگسی، محمد خان لہڑی، ظہور احمد بلیدی اور سردار صالح محمد بھوتانی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے دو وزرا نصیب اللہ مری اور مبین خلجی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے اسد اللہ بلوچ اور منحرف رکن سید احسان شاہ، عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ شامل ہیں۔
پانچ مشیروں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ضیاء اللہ لانگو، لالہ عبدالرشید بلوچ، سردار مسعود علی لونی، تحریک انصاف کے نعمت اللہ زہری اور جمہوری وطن پارٹی کے نوابزادہ گہرام بگٹی شامل ہیں۔
کابینہ میں ان ارکان کی اکثریت ہے جنہوں نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اہم کردار ادا کیا۔ سید احسان شاہ اور نعت اللہ زہری کے علاوہ باقی سب ارکان اور مشیر جام حکومت میں بھی کابینہ کا حصہ یا پارلیمانی سیکریٹری رہ چکے ہیں۔
سید احسان شاہ بی این پی عوامی کے منحرف رکن ہیں، جام حکومت میں وزارت نہ ملنے پر انہوں نے اپنی جماعت سے علیحدگی اختیار کر کے پاکستان نیشنل پارٹی قائم کر لی تھی۔ نعمت اللہ زہری سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے چھوٹے بھائی ہیں۔
وزرا کو ابھی تک قلمدان نہیں سونپے گئے تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اہم کردار ادا کرنے والوں کو اہم وزارتیں دی جائیں گی۔
کابینہ میں خواتین اور اقلیتی ارکان کو نمائندگی نہ دینے پر تنقید
عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں کسی خاتون اور اقلیتی رکن کو حصہ نہیں دیا گیا۔ جام کمال کی مخالفت میں پیش پیش خواتین ارکان اسمبلی کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ تین سال تک برسرار اقتدار رہنے والی جام کمال خان کی مخلوط حکومت میں بھی کوئی خاتون وزیر یا مشیر شامل نہیں تھی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی ماہ جبین شیران، بشریٰ رند اور لیلیٰ ترین کو پارلیمانی سیکریٹریز مقرر کیا گیا ہے۔ تینوں خواتین اس سے قبل بھی پارلیمانی سیکریٹری رہ چکی ہیں ۔ تاہم پارلیمانی سیکریٹریز کے اختیارات وزرا اور مشیروں کے مقابلے میں محدود ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے ریجنل کوآرڈینیٹر علاؤالدین خلجی کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پالیسی اور فیصلہ سازی میں خواتین کو نظر انداز کیا گیا، اس سے پچھلی حکومتوں کی بھی یہی روش تھی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین ملک کی آبادی کا 51 فیصد ہے مگر انہیں اپنی آبادی کے تناسب سے اسمبلی میں اور نہ ہی کابینہ میں کبھی نمائندگی ملی ہے۔ اسمبلی میں انہیں مخصوص نشستوں کے ذریعے33 فیصد نمائندگی تو دی گئی ہے مگر مخصوص نشستوں پر کامیاب ہو کر آنے والی خواتین کو مردوں کے برابر فنڈز اور دیگر اختیارات نہیں ملتے۔‘
ان کے بقول مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین ارکان اسمبلی کو تب ہی اہمیت دی جاتی ہے جب سینٹ کے انتخابات، اسمبلی میں اعتماد، عدم اعتماد کی تحریک یا کوئی اہم مسودہ قانون پیش کرنا ہو کیونکہ اس وقت سب کا ووٹ ایک برابر ہوتا ہے۔
علاؤ الدین خلجی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو جنرل نشستوں پر پانچ فیصد ٹکٹس خواتین کو دینے کی شرط عائد کی تو بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے اس میں بھی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین کو ان حلقوں میں ٹکٹس دیے جہاں ان کا ووٹ بینک ہی نہیں تھا۔
بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون سپیکر راحیلہ درانی کا کہنا ہے کہ وہ اس کابینہ کو مکمل ہی نہیں سمجھتی جن میں خواتین اور اقلیت کی نمائندگی نہیں۔ معاشرے کے جن محروم طبقات پر سب سے زیادہ توجہ دینی کی ضرورت ہے کابینہ میں نظر انداز کر کے ان کی آواز کیسے سنی جائے گی؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خواتین کی عزت تو بہت کی جاتی ہے مگر انہیں سیاسی عمل سمیت معاشرے میں جائز مقام نہیں دیا جاتا۔
صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ کے مطابق بلوچستان کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی ایک سیاسی جماعت اسمبلی کی سادہ اکثریت حاصل کر کے اکیلی حکومت قائم نہیں کر سکی، اس لیے کئی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنائی جاتی ہے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ ہمیشہ سیاسی دباؤ میں ہوتا ہے ان کی ترجیح اپنی کرسی بچانے کی ہوتی ہے اس لیے وہ خواتین ارکان کو نظر انداز کر کے صرف مرد ارکان اسمبلی کو اہمیت دیتے ہیں۔
سید علی شاہ کے مطابق خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی اہل اور فعال خواتین کو نہیں لایا جاتا۔ ’مرکزی جماعتیں ہوں، مذہبی یا قوم پرست جماعت سب نے ان نشستوں پر ایسی خواتین کا انتخاب کیا جو پارٹی کے اہم عہدے داروں کی رشتہ دارتھیں یا ان کا تعلق ایلیٹ کلاس سے تھا جنہیں بلوچستان کے دیہی علاقوں کی خواتین کے مسائل کا علم ہی نہیں تھا۔ اسی لیے اسمبلی میں ان کا کردار بھی فعال نہیں رہا۔‘
نیشنل پارٹی کی رہنما اور بلوچستان اسمبلی کی سابق رکن یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر خواتین کے انتخاب میں وقت کے ساتھ بہتری آ رہی ہیں۔ ان نشستوں پر آنے والی خواتین نے اسمبلی میں مردوں سے زیادہ فعال اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ مخصوص نشستوں پر انتخاب صرف اقرباء پروری اور اہلیت کے خلاف ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں کی خواتین رہنما قبائلی اور پدر شاہی معاشرے میں ہر طرح کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرکے ایک جدوجہد اور قربانی کے بعد ہی اس مقام تک پہنچتی ہیں۔
یاسمین لہڑی کے مطابق ’ایک تو ہمارا معاشرہ پدر شاہی کا ہے اور دوئم مرد ارکان اسمبلی انتخابات میں پیسہ اور وسائل خرچ کرکے آتے ہیں اس لیے کابینہ میں خواتین پر مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کابینہ کے حجم کو محدود کر دیا گیا ہے اس لیے بھی خواتین کے لیے سپیس مزید کم ہو گئی ہے۔‘
سابق خاتون رکن اسمبلی نے تجویز دی کہ خواتین اور اقلیت کو کابینہ کا لازمی حصہ بنانے کے لیے قانون سازی اورمخصوص نشستوں پر خواتین کا انتخاب براہ راست انتخابات کے ذریعے ہونا چاہیے تاکہ خواتین ارکان کا فیصلہ سازی میں کردار مزید مضبوط ہو اور معاشرے میں شعور و آگاہی کے فروغ کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل میں خواتین کے لئے قبولیت کی راہ ہموار ہو سکے۔