عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے 18 ویں وزیراعلیٰ ہوں گے۔ وہ دوسری بار وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں مرتبہ وہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس منصب تک پہنچے۔
جنوری 2018ء میں بھی عبدالقدوس بزنجو نے مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن کے منحرف اراکین کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا کر نواب ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور پھر چھ ماہ تک خود بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔
مزید پڑھیں
-
اپنے مستقبل کا اختیار باپ پارٹی اور اتحادیوں کو دے دیا: جام کمالNode ID: 611926
-
میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کا وزیراعلیٰ بننا یقینیNode ID: 613346
-
عبدالقدوس بزنجو بلامقابلہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخبNode ID: 613591
عبدالقدوس بزنجو نے 1974ء میں آواران کی تحصیل جھاؤ میں ایک سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد میر عبدالمجید بزنجو اور والد کے چچا میر عبدالکریم بزنجو بھی صوبے کے فعال سیاسی رہنما تھے۔
عبدالقدوس نے بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔
عبدالقدوس بزنجو پہلی مرتبہ 28 سال کی عمر میں 2002ء میں آواران سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 2007ء تک جام کمال کے والد جام محمد یوسف کی کابینہ میں وزیر امور حیوانات رہے۔ 2013ء میں دوسری مرتبہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر آواران سے رکن بلوچستان اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر بنے۔
ملکی تاریخ میں سے کم ووٹ لینے والے امیدوار
آواران میں امن وامان کی خراب صورتحال، شورش اور کالعدم تنظیموں کی دھمکیوں کے باعث 2013ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح پورے ملک میں سب سے کم تھی۔ عبدالقدوس بزنجو کو صرف 544 ووٹ ملےجو ملکی تاریخ میں کسی کامیاب امیدوارکو پڑنے والے سب سے کم ووٹ تھے اسی لیے جنوری 2018ء میں ان کے وزیراعلیٰ بننے پر میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف سمیت سیاسی مخالفین نے تنقید کی کہ صرف 500 ووٹ لینے والا وزیراعلیٰ بن گیا۔
2018ء کے انتخابات سے قبل عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال نے مسلم لیگ ن اور ق لیگ کے منحرف اراکین کے ساتھ مل کر بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دی جس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ یہ جماعت 2018ء کے انتخابات میں 24 نشستوں کے ساتھ بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بنی۔
ابتداء میں ہی نئی جماعت کی صدارت اور وزرات اعلیٰ پر ان کے جام کمال سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ وزرات اعلیٰ کی دوڑ سے دستبرداری کے بعد عبدالقدوس بزنجو کو بلوچستان اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا۔ تاہم جام کمال اور ان کے درمیان اختلافات کبھی ختم نہیں ہوئے۔ کئی مواقع پر یہ اختلافات ذرائع ابلاغ کی بھی زینت بنتے رہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب وزیراعلیٰ نے آواران میں عبدالقدوس بزنجو کے سیاسی مخالفین اور اپنے رشتہ دار رامین محمد حسنی کی حمایت کرنا شروع کر دی اور عبدالقدوس بزنجو کے شروع کردہ کئی ترقیاتی منصوبوں کو بد عنوانی کو وجہ بنا کر روک دیا۔
رواں سال کے وسط میں اختلافات مزید بڑھنے پر عبدالقدوس بزنجو نے اپنی جماعت میں موجود جام کمال کے مخالفین کے ساتھ مل کر باقاعدہ مہم شروع کی اور بات بالآخر جام کمال کے استعفے تک آ پہنچی۔
’ان کا خاندان شروع سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہا‘
آواران سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالرشید بلوچ کے مطابق عبدالقدوس بزنجو اور ان کا خاندان شروع سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہا۔ 70ء کی دہائی میں ان کے دادا(والد کے چچا) میر عبدالکریم بزنجو نے بھٹو کی حمایت سے سرداروں کے خلاف مہم چلائی۔
جام کمال کے دادا سابق وزیراعلیٰ جام غلام قادر اور سابق نگراں وزیراعلیٰ میر نصیر مینگل بھی ان کے ساتھی تھے۔
1976ء میں میر عبدالکریم بزنجو اور پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں ان کے والد میر عبدالمجید بزنجو رکن اسمبلی بنے۔ ان کے والد 1988ء اور 1990 میں دوسری اور تیسری مرتبہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ سے رکن صوبائی اسمبلی بنے۔ اس دوران صوبائی وزیر اور دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے۔ ان کے والد 1999ء تک نوازشریف کے ساتھ رہے اور پھر ق لیگ کا حصہ بنے۔ عبدالقدوس بزنجو نے بھی پارلیمانی سیاست کا آغاز مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے کیا۔