Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی سلامتی کمیٹی: ’اپوزیشن کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر تحفظات‘

آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ کے بعد سیاسی قیادت نے سوالات کیے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ پر تو بڑی حد تک اتفاق کیا اور مختلف معاملات میں اپنی سفارشات اور تجاویز بھی دیں لیکن ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے اور  ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات، وزیراعظم کی اجلاس میں عدم شرکت اور ملکی معاشی صورت حال پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پیر کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی میں اس مرتبہ بھی سیٹنگ پلان گزشتہ اجلاس کی طرح ہی رکھا گیا تھا کہ سپیکر کے چبوترے کے بالکل سامنے کرسی صدارت تھی جس پر سپیکر براجمان تھے جبکہ ان کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ کی نشست تھی۔
سپیکر کے دائیں جانب روسٹرم تھا جس کے ساتھ موجود کرسیوں پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس کو بٹھایا گیا جبکہ ان کے سامنے روسٹرم رکھا گیا تھا جس پر بریفنگ دی گئی جبکہ سپیکر کے سامنے دائیں جانب حکومتی اور بائیں جانب اپوزیشن ارکان براجمان تھے۔
عسکری قیادت کی جانب سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کی بریفنگ کے بعد شہباز شریف نے 40 منٹ تک گفتگو کی جبکہ سوال و جواب کے سیشن میں آرمی چیف نے بیشتر سوالوں کے جواب خود دیے۔
اجلاس میں موجود پارلیمانی رہنماؤں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس کے آغاز پر سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی رہنماؤں اور عسکری قیادت کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ سب کو بات کرنے کا موقع دیں گے۔
آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے افغانستان کی موجودہ صورت حال، پاکستان کے کردار، انسانی امداد، امریکہ کے ساتھ تعاون اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بریف کیا۔
اجلاس کے ماحول کے حوالے سے حکومتی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس بہترین ماحول میں ہوا۔ ایک وزیر نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول کی تقاریر بالکل فارغ تھیں جبکہ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وفاقی وزراء نے تجاویز کے بجائے عسکری قیادت کی تعریفوں کے پل باندھے۔

تحریک لبیک سے معاہدے پر ن لیگ، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ فائل فوٹو: ن لیگ ٹوئٹر

ایک سوال کے جواب میں ایک وفاقی وزیر نے بتایا کہ ’آج تو اجلاس میں پن ڈراپ سائلنس تھی یہاں تک کہ میری گفتگو کے دوران بھی خاموشی رہی۔‘
اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک وفاقی وزیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ بنیادی طور پر عسکری قیادت نے پارلیمانی قیادت کے ساتھ موجودہ صورت حال اور کچھ سوالات شیئر کیے۔ اور پوچھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا اور کیا جا رہا ہے اس پر اپنی، آراء، تجاویز اور سفارشات دی جائیں تاکہ ریاستی ادارے ان کی رہنمائی میں آگے بڑھیں۔
وفاقی وزیر کے مطابق بریفنگ میں بتایا گیا کہ ’اس وقت تحریک طالبان پاکستان کی تعداد اڑھائی سے تین ہزار ہے۔ ان میں دو تہائی وہ ہیں جو نسبتاً نرم مزاج اور ریاست کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں۔ ان کو ریاست کے ساتھ کچھ گلے شکوے ہیں جن کی بنیاد پر وہ بات چیت کے لیے تیار ہوئے۔‘
مزید بتایا گیا کہ ’اس وقت بارہ گروپس سے بات چیت ہو رہی ہے اور ان کے سامنے تین شرائط رکھی گئی ہیں۔ سب سے پہلے وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں گے، دوسرے نمبر پر وہ پاکستان کے شناختی کارڈ بنوائیں گے اور آخری یہ کہ وہ ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہوں گے۔‘
اس حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کی اکثریت نے مذاکرات کی حد تک تو اتفاق کیا تاہم اپوزیشن کے ایک اہم رہنما کے مطابق شہباز شریف اور کچھ دیگر نے طریقہ کار پر اعتراض اٹھائے۔ ان کے اعتراضات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
اپوزیشن رہنما نے بتایا کہ ’شہباز شریف کا موقف تھا کہ طالبان کے تمام دھڑوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ طالبان کی کارروائیوں میں بے نظیر بھٹو سمیت پاکستان کے ہزاروں شہریوں کی جانیں گئی ہیں۔ اس لیے ان سے مذاکرات پر متاثرہ خاندانوں کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔‘

اپوزیشن رہنماؤں نے عمران خان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عدم شرکت پر تنقید کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اپوزیشن رہنما کے مطابق افغانستان کی صورت حال اور مستقل میں امریکہ کے ساتھ تعاون کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا۔ پاکستان افغانستان میں کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے اپنی فضائی حدود نہیں دے گا اور اگر مستقبل میں اس مقصد کے لیے فضائی حدود دی بھی گئیں تو یہ امریکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی معاہدے کے نتیجے میں ہی ہوگا۔ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ پھر ’وزیراعظم کو ایبسولوٹلی ناٹ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ امریکہ کے ساتھ تعاون میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ پاکستان کسی نئی جنگ کا حصہ نہ بن جائے۔ اسی طرح افغانستان میں کردار ادا کرتے ہوئے کسی ایک گروہ کو سپورٹ نہ کیا جائے بلکہ افغان ریاست کے ساتھ تعاون کیا جائے۔‘
تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کے حوالے سے بھی ن لیگ، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تحفظات کا اظہار کیا۔
اپوزیشن کے ایک رہنما نے بتایا کہ ’حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ جب بھی معاہدہ سامنے آئے گا یقین دہانی کراتے ہیں کہ اس میں آئین و قانون سے متصادم کچھ بھی شامل نہیں ہوگا۔‘
اجلاس میں شریک ایک سے زائد حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں نے معاشی صورت حال کے حوالے سے عسکری قیادت کی تشویش کی تصدیق کی اور کہا کہ اس حوالے سے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ معیشت اور قومی سلامتی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس وقت معیشت کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی عدم موجودگی قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس میں بھی اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کا لازمی جزو رہی۔ ایک اپوزیشن رہنما نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہمیں چور، ڈاکو اور لٹیرے کہا جاتا ہے۔ ہم اپنی عزت اور وقار کو مجروح کرکے یہاں بیٹھے ہیں کیونکہ یہ اجلاس حکومت نہیں ریاست اور پاکستان کے لیے اہم ہے لیکن وزیراعظم قومی مفاد کے لیے بھی پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔‘

شیئر: