Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، ’ملکی معاشی صورتحال اچھی نہیں ہے‘

اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کریں گے۔ (فوٹو: فائل)
پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے ملکی معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت پانچ گھنٹے سے زائد جاری رہا جس میں عسکری قیادت کی جانب سے افغانستان کی صورت حال اور اس سے جڑے دیگر معاملات اور پاکستان کے کردار پر بریفنگ دی گئی۔
عسکری حکام پارلیمانی رہنماؤں کو افغانستان کی صورتحال، پاکستان کے کردار اور پاکستان پر اس کے اثرات کے علاوہ اندرونی و بیرونی سکیورٹی معاملات پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے شرکا کو کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات بھی بریفنگ کا حصہ رہے۔
اجلاس میں کمیٹی ارکان کے علاوہ تمام پارلیمانی رہنما، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، صوبائی وزرائے اعلیٰ، حکومتی اور اپوزیشن ارکان پارلیمان شریک تھے۔ 
قومی سلامتی کمیٹی میں موجود ایک پارلیمانی رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے بریفنگ پر پارلیمانی رہنماؤں نے اپنی آراء اور سفارشات دیں۔ سب سے پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے صورتحال پر تفصیلی تبصرہ کیا۔
ایک اور پارلیمانی رہنما نے بتایا کہ اجلاس کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'معاشی صورت حال اچھی نہیں ہے۔'
اجلاس کے دوران ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور اس سلسلے میں ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کو ایم کیو ایم کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 
ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے کہا کہ 'اگر پولیس والوں کو قتل کرنے کا جرم معاف ہو سکتا ہے تو ہم نے تو صرف تالیاں بجائی تھیں۔ بتایا جائے کہ قتل کرنا بڑا جرم ہے یا تالی بجانا؟ درخواست ہے کہ ہمارا تالی بجانے کا جرم معاف کر دیا جائے۔'
اس حوالے سے ایم کیو ایم کے رہنما نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ’اچھا ہے کہ ہمیں ہمارے دفاتر نہیں واپس نہیں دیے جا رہے ہم نے ان حالات میں کام کرکے بھی سیکھا ہی ہے۔'
اجلاس میں وزیراعظم کی عدم شرکت ایک بار پھر زیر بحث آئی۔
اجلاس سے باہر آنے والے ایک اور پارلیمانی رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس میں شہباز شریف سمیت کم و بیش تمام پارلیمانی رہنماؤں نے ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا۔

مشیر قومی سلامتی، خارجہ، داخلہ، دفاع اور امور کشمیر کے وفاقی سیکریٹریز نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

شہباز شریف نے معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرکے اس پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اجلاس کے دوران سیاسی رہنماؤں نے مذاکرات کی مخالفت نہیں کی۔
ایک پارلیمانی رہنما کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ ٹی ٹی پی اگر پاکستان کی ریاست، آئین اور قانون کو پوری طرح تسلیم کرے اور ہتھیار پھینک کر اپنی جدوجہد کرتی ہے اسے موقع ملنا چاہیے۔
پارلیمانی رہنما کے مطابق ’جب تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں ملوث ہونے کے بارے میں سوالات ہوئے تو جواب ملا کہ ہر تصفیے کا آخری حل مذاکرات ہوتا ہے۔ اس لیے اگر طالبان ہتھیار پھینکنے کو تیار ہیں تو اس سلسلے کو سپورٹ ملنی چاہیے۔‘
اجلاس سے باہر آنے پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اس بات کی تصدیق کی کہ اجلاس کے دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اور اکثریت کی جانب سے اس کی حمایت کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وفاقی مسئلہ ہے اور صوبے بھی پاکستان کے مفاد میں ہونے والے فیصلے میں ساتھ دیں گے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی بلوچستان حکومت اس کی حمایت کرے گی۔
معیشت کے حوالے سے سوال پر ایک پارلیمانی رہنما نے بتایا کہ عسکری قیادت کی جانب سے یہ بات کہی گئی کہ جب آپ کے عوام خوشحال، ملکی معاشی صورت حال بہتر ہو تو کسی بھی خطرے اور طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا آسان ہوتا ہے۔
قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مجموعی طور پر 78 اراکین پارلیمنٹ اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزرائے اعلٰی بھی شریک تھے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرداخلہ شیخ رشید شریک، مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان، وزیر مملکت علی محمد خان اور بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے بھی شرکت کی۔
مشیر قومی سلامتی، خارجہ، داخلہ، دفاع اور امور کشمیر کے وفاقی سیکریٹریز نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
قومی سلامتی اداروں کے سربراہان نے عوامی نمائندوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
اجلاس کے موقع پر سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے اور پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا کا داخلہ بھی بند کیا گیا۔
اس سے قبل جولائی میں بھی پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے پارلیمانی قیادت کو بریف کیا تھا۔
گذشتہ جمعے پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات کے ذرائع نے کہا تھا کہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرت کا آغاز ہو چکا ہے اور دونوں فریقین نے مذاکرات کے دوران سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔
وزارت اطلاعات کے ذرائع کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت مذاکرات کے دوران سہولت کاری کا کرداد ادا کر رہی ہے۔

شیئر: