حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات سمیت دیگر بلوں کی منظوری کے لیے مشترکہ اجلاس سے ایک روز قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں حکومت اور اپوزیشن نے اپنی اپنی برتری یقینی بنانے کے لیے سارا دن ارکان سے رابطوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
بلوں کی منظوری میں نمبر گیم اہمیت اختیار کر گئی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کو اپوزیشن پر صرف دو ووٹوں کی سبقت حاصل ہوسکتی ہے، جبکہ تحریک انصاف کے کچھ ارکان سے پارٹی قیادت کا تاحال رابطہ نہیں ہوسکا۔
اجلاس میں ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ اپنے اپنے چیمبرز میں رہنماؤں سے مشاورت اور رابطوں میں مصروف رہے۔
مزید پڑھیں
-
حیران ہوں کہ اپوزیشن ووٹنگ مشین سے کیوں ڈرتی ہے: عمران خانNode ID: 619021
وزیراعظم عمران خان سے منگل کو حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے وفد سمیت تحریک انصاف کے متعدد ارکان پارلیمنٹ نے ملاقاتیں کیں، جبکہ اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس سے واپسی پر جب میڈیا نمائندگان نے وزیراعظم عمران خان سے پوچھا کہ مشترکہ اجلاس کے لیے کتنے پرامید ہیں؟ تو وہ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے رکے اوپر موجود صحافیوں کی طرف دیکھا اور بولے ’جو سپورٹس مین ہوتا ہے، جب گراؤنڈ میں قدم رکھتا ہے تو وہ ہمیشہ سمجھتا ہے کہ وہ جیتے گا۔‘
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعداد کے کم فرق کی وجہ سے نمبر گیم اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اجلاس سے پہلے حکومت اور اپوزیشن میں واضح گبھراہٹ دکھائی دی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس وقت ارکان کی مجموعی تعداد 442 ہے، جبکہ سینیٹ میں ن لیگ کے اسحاق ڈار کی عدم موجودگی کے باعث دو نشستیں خالی ہیں۔
پارلیمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق 440 کے مشترکہ ایوان میں حکومت کو صرف دو ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے کچھ ارکان ابھی تک حکومت کے رابطے میں نہیں آسکے جس وجہ سے حکومتی صفوں میں خاصی تشویش پائی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے اردو نیوز نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے چیف وہپ عامر ڈوگر سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ فی الحال وہ وزیراعظم کے ساتھ انتہائی مصروف ہیں اور بدھ کے روز بھی مصروف رہیں گے۔ اس لیے کسی سوال کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
تاہم عمران خان کی جانب سے صحافیوں کو دیے گئے جواب سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ’پکچر ابھی باقی ہے۔‘
440 کے مشترکہ ایوان میں حکمران اتحاد کے پاس 221 جبکہ اپوزیشن کو 219 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 183، ایم کیو ایم کے 10، بلوچستان عوامی پارٹی کے 14، مسلم لیگ ق کے 6، جی ڈی اے کے 4، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن ہے، جبکہ دو آزاد ارکان بھی حکومت کے حامی ہیں۔
حکومت کو ایک فائدہ یہ حاصل ہے کہ سینیٹ میں چھ ارکان پر مشتمل سینیٹر دلاور خان گروپ بھی حکومت کا حامی ہے اس سے حکومت کو مجموعی طور پر آٹھ ووٹوں کی برتری حاصل ہوجاتی ہے اس کے باوجود حکومت کو اپنے ارکان کی غیر حاضری کا خدشہ ہے۔

اس حوالے سے ایک حکومتی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’گذشتہ ہفتے وزیراعظم کی جاب سے دیے گئے ظہرانے میں کم وبیش 30 ارکان کی نشان دہی ہوئی تھی جنہوں نے ظہرانے میں شرکت نہیں کی تھی۔‘
’اسی وجہ سے اجلاس موخر کیا گیا تھا اور اب بھی ان میں سے کچھ ارکان کے ساتھ رابطہ نہیں ہو سکا جس وجہ سے مشترکہ اجلاس کی طلبی کا باضابطہ نوٹیفکیشن دیر سے جاری ہوا۔‘
دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بھی ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھ رہی ہیں کیونکہ گذشتہ مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی غیر حاضری کے باعث حکومت نے آسانی سے کئی بل منظور کروا لیے تھے جس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق منگل کو اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اس نکتے کو مدنظر رکھا گیا۔
نمبر گیم کے مطابق اپوزیشن کے 219 میں سے 99 ارکان کا کا تعلق مسلم لیگ ن، 77 پیپلز پارٹی، 21 ایم ایم اے سے ہیں۔ بی این پی کے 6، اے این پی کے 3، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو دو اور تین آزاد ارکان ہیں۔ دلاور خان گروپ کے چھ ارکان بھی اپوزیشن نشستوں پر ہی بیٹھتے ہیں۔
