Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ انتخابات میں ’گیم چینجر‘ ثابت ہوگا؟

بعض حلقوں کی جانب سے دوہری شہریت رکھنے والوں کی اہلیت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی پارلیمنٹ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے قانون کی منظوری دے دی ہے تاہم بیرون ملک مقیم ووٹرز کے حق رائے دہی کے طریقہ کار کے حوالے سے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اسی طرح بیرون ملک مقیم ووٹرز کی اہلیت کے معیار کا تعین ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ مختلف حلقوں کی جانب سے بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے فیصلے کی حمایت تو کی جا رہی ہے لیکن دوہری شہریت رکھنے والوں کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔
اس کے باوجود پاکستان کی ووٹر لسٹوں میں ایسے ہزاروں افراد موجود ہیں جو دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں اور پاکستان میں ان کے ووٹ درج بھی ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ ووٹ کاسٹ کرنے پاکستان بھی آتے ہیں۔
اس صورت حال میں جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل چکا ہے تو اس کے 2023 کے عام انتخابات کے نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس حوالے سے بھی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ اس کا بظاہر فائدہ موجودہ حکمران جماعت کو ہوگا لیکن اس کے لیے ٹرن آؤٹ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ووٹ کا حق سمندر پار پاکستانیوں کا مطالبہ تو رہا ہے لیکن ماضی قریب میں 35 حلقوں کے 6 لاکھ 31 ہزار سے زائد ووٹرز کو جب یہ حق استعمال کرنے کا موقع دیا گیا تو اس وقت صرف 7364 ووٹرز نے خود کو ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹر کیا۔
صرف 6233 ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا جو کہ مجموعی ووٹرز کا ایک فیصد بنتا ہے جبکہ پاکستان میں ٹرن آؤٹ 55 فیصد تھا۔
متحدہ عرب امارات میں 1654، سعودی عرب میں 1451، برطانیہ 752، کینیڈا میں 328 اور امریکہ میں 298 پاکستانیوں نے اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ ڈالا۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے قانون کی منظوری دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگر ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار 2018 کے ضمنی انتخابات جیسا ہی رہا تو سمندر پار پاکستانیوں کی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے گی۔‘
ان کے بقول ’اگر 90 لاکھ میں سے 70 لاکھ افراد کے ووٹ پاکستان میں رجسٹرڈ ہوں تو ان میں سے 40 سے 50 لاکھ تو مشرق وسطیٰ میں ہیں جو بنیادی طور پر مزدور طبقہ ہے اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے مشکل طریقہ کار سے ناواقف بھی ہے۔‘
کنور دلشاد نے مزید کہ ’کفالت کے نظام کی وجہ سے ان کے پاس اپنے پاسپورٹ وغیرہ بھی موجود نہیں ہوتے اس لیے ایک بڑی تعداد تو ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم رہے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یورپ اور امریکہ اور دیگر ممالک میں مقیم ووٹرز آسانی اور اپنی خوشی سے ووٹ کاسٹ کرسکیں گے اور یہ وو ووٹرز ہیں جس کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا لیکن میرا نہیں خیال کہ انتخابی نتائج پر کوئی بہت بڑا اثر ڈال سکیں گے۔‘

بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد کتنی ہے؟

پاکستان میں ایک ضلع میں قومی اسمبلی کی دو سے چار نشستیں ہیں۔ کئی اضلاع ایسے ہیں جن میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے سات لاکھ سے زائد تک ہے۔
اس حساب سے کئی اضلاع میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بنتی ہے جو ووٹ کاسٹ ہونے کی صورت میں یقیناً نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی ووٹر لسٹوں میں ایسے ہزاروں افراد موجود ہیں جو دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں اور پاکستان میں ان کے ووٹ درج بھی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

نادرا اور الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے تین اضلاع میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد سات لاکھ 30 ہزار سے زائد ہے جبکہ لاہور کے سات لاکھ 10 ہزار ووٹرز بیرون ملک مقیم ہیں۔
راولپنڈی ساڑھے پانچ لاکھ، گجرات ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر جبکہ سیالکوٹ چار لاکھ 75 ہزار جبکہ گوجرانوالہ چار لاکھ سے زائد بیرون ملک ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔
فیصل آباد تین لاکھ 45 ہزار، اسلام آباد دو لاکھ 10 ہزار، سوات 2 لاکھ 20 ہزار اور جہلم کے بھی دو لاکھ 40 ہزار ووٹرز بیرون ملک مقیم ہیں۔
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود کا کہنا ہے کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ پاکستان کے انتخابی نتائج پر صرف اس صورت میں اثر انداز ہو سکتے ہیں جب کم و بیش ہر حلقے میں 35 سے 50 فیصد بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹ کاسٹ کریں۔‘
’بیرون ملک مقیم مجموعی نمبرز کو دیکھ کر یہ فرض کر لینا کہ یہ سب کاسٹ ہوں گے ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی طرح یہ ووٹرز کسی ایک حلقے میں نہیں بلکہ دنیا کے 200 ممالک میں مقیم ہیں۔‘

کئی اضلاع ایسے ہیں جن میں بیرون ملک مقیم ووٹرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے سات لاکھ سے زائد تک ہے (فائل فوٹو: نادرا)

ڈاکٹر آمنہ محمود سمجھتی ہیں کہ ’جن ممالک میں سیاسی جماعتوں کی تنظیمیں مقامی سطح پر فعال اور متحد ہیں اور ووٹرز کی اکثریت کا تعلق کسی ایک علاقے سے ہو تو وہ اپنا اثر دکھانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو وہ سمندر پار پاکستانی جن کو پاکستانی سیاست میں دلچسپی ہے وہ ووٹ تو ڈالیں گے لیکن کسی کی جیت میں شاید کردار ادا نہ کر سکیں۔‘
ڈاکٹر آمنہ محمود کے بقول سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے سے اقدامات کی وجہ سے جو لوگ ووٹ ڈالیں گے ان میں اکثریت ممکنہ طور پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دے گی۔
’اگر پاکستان میں وہ حلقے جہاں تحریک انصاف کو امیدوار چند سو ووٹوں سے ہارے تھے اور ان کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو بیرون ملک مقیم ووٹرز ان کی کامیابی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘

شیئر: