پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے سے متعلق بل پاس ہو جانے کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ ’آئندہ انتخابات ای وی ایم پر ہوں گے یا نہیں اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کا اجلاس چیئرمین ریاض فتیانہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں
-
انتخابی اصلاحات پر حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹی کیوں نہ بن سکی؟Node ID: 615231
-
مشترکہ اجلاس: ’آپ سپیکر رہے ہیں، کیا یہ آپ کی اخلاقیات ہیں؟‘Node ID: 619281
-
بل منظور، اوورسیز پاکستانی الیکشن میں اپنا ووٹ کیسے ڈال سکیں گے؟Node ID: 619411
اجلاس میں ارکان اسمبلی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے کہا کہ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال آئندہ عام انتخابات میں ہوگا یا نہیں، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ای وی ایم کے استعمال میں چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’قانون سازی کے باوجود آئندہ عام انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال سے پہلے 14 مراحل سے گزرنا ہوگا۔ جن میں خاص طور پر ای وی ایم کے استعمال سے متعلق مزید تین سے چار پائلٹ پراجیکٹ کرنا پڑیں گے۔‘
سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ’ایک پولنگ سٹیشن پر کتنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہوں گی، اس کا اندازہ لگانا اور پتہ چلانا باقی ہے۔‘
اس موقع پر ارکان اسمبلی نے بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی صورت میں ای وی ایم کے ممکنہ استعمال، کسی بھی تکنیکی خرابی کی صورت میں ووٹنگ کے متبادل نظام اور ووٹنگ کے بعد اتنی بڑی تعداد میں مشینوں کو سنبھال کر رکھنے، مینٹینینس سے متعلق سوالات کیے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’اس وقت الیکشن کمیشن میں ان تمام معاملات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ فوری طور پر میں آپ کے سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘

سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کے تحت نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی۔ ’ای وی ایم کا بل تو پاس ہوگیا لیکن ہم اس کے مطابق انتخابات کرانے کے پابند نہیں ہیں، ان مشینوں کے استعمال میں ہمیں کافی وقت لگے گا۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’انڈیا کو اس پر 20 سال اور برازیل کو 22 سال کا عرصہ لگا تھا۔ ضروری نہیں بل پاس ہونے کے بعد ہم مشینوں کو فوری استعمال کریں۔‘
عمر حمید خان کے بقول ’اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک میں اتنخابات کے مروجہ طریقہ کار تبدیل کرتے ہوئے ووٹنگ الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کرانے کے قانون کی منطوری دی گئی تھی۔
اس قانون کے تحت الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات سے قبل الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں خریدے گا اور ان کے ذریعے ہی انتخابات کروائے گا۔
الیکٹرونک ووٹنگ مشین کیا ہے؟
اس مشین کے چار حصے ہیں جو نسبتاً سائز میں بڑے ہیں لیکن حکام کے مطابق اس کا سائز چھوٹا کیا جا سکتا ہے۔
پہلا حصہ ایک بڑے ٹیلی فون سیٹ کی طرح ہے جس پر کِی پیڈ، چھوٹی سکرین، شناختی کارڈ ڈالنے کی جگہ اور انگوٹھا سکین کرنے کا سینسر لگا ہوا ہے۔ اس حصے میں چپ کے ذریعے کسی بھی حلقے کے 50 ہزار ووٹرز کا ڈیٹا چند سیکنڈز میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
پولنگ سے پہلے متعلقہ پریزائیڈنگ آفیسر ٹیکنیکل ٹیم کی طرف سے فراہم کیے گئے خفیہ کوڈ اور پاسورڈ کے ذریعے مشین کو آپریشنل کرے گا۔

ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والا ووٹر شناختی کارڈ پولنگ عملے کو دے گا جو کارڈ کو مشین میں ڈالے گا۔ شناختی کارڈ کی تصدیق ہونے کی صورت میں سکرین پر ٹک کا نشان سامنے آ جائے گا۔
جس کے بعد سینسر کے ذریعے بائیو میٹرک ویری فیکیشن ہوگی۔ اس حصے کو ووٹر’شناختی یونٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
دوسرے مرحلے میں ووٹر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تیسرے حصے پر چلا جائے گا جبکہ دوسرا حصہ پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس ہو گا جس پر سرخ اور سبز رنگ کی بتیاں لگی ہوں گی۔
جونہی پریزائیڈنگ آفیسر بٹن دبا کر ووٹ ڈالنے کی اجازت دے گا تو سبز رنگ کی لائٹ جل جائے گی جس سے پولنگ ایجنٹس کو پتہ چل سکے گا کہ اب ووٹ ڈالا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اس حصے کو ’کنٹرول یونٹ ‘ کہا جاتا ہے۔
تیسرا حصہ ’بیلٹ یونٹ‘ کہلاتا ہے جس میں متعلقہ حلقے کے امیدواروں کے انتخابی نشان حروف تہجی کی ترتیب سے درج ہوں گے۔
