سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ان سے منسوب آڈیو ٹیپ خود ساختہ ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)
ن لیگ کی سیاست کچھ عرصے سے لیکس کی سیاست بن کر رہ گئی ہے۔ اس طرز سیاست کا آغاز جج ارشد ملک کے انکشافات اور اس سے جڑی ویڈیوز سے ہوتا ہوا جج رانا شمیم کے بیانات تک پہنچا اور اب تازہ ترین سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔
ان انکشافات اور لیکس کی اصل حقیقت پر تو ہر طرف سے تبصرے ہو رہے ہیں اور ساتھ ان سے جڑے معاملات عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ لیکس اس طرح کا سیاسی اثر ڈالنے میں کوئی خاص کامیاب نہیں ہوئیں جس کی شاید ن لیگ کو توقع تھی بلکہ زیادہ تر رائے عامہ اس پر تحفظات اور شکوک کی صورت میں ہی سامنے آئی ہے۔
اس سوال کا جواب ن لیگ کی دو طرفہ سیاست میں ہے۔ ایک طرف تو ان کی سیاست اپنی کارکردگی یا اس تسلسل میں موجودہ سیٹ اپ کی ناکامی کو عیاں کرنے میں ہے۔ دوسری طرف ان کا محور نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی توقیر بحال کرنا ہے۔ اس لیے ن لیگ کے سارے لیڈر اور کارکن ہمہ وقت نواز شریف کی صفائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اپنے منشور اور روڈ میپ پر سیاست کرتی اور ووٹ مانگتی ہیں۔ وہ اپنا ایجنڈا لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہیں جس پر لوگ ان کی صلاحیت کا تعین اور آنے والے وقت میں ان سے توقعات وابستہ کرتے ہیں۔
ن لیگ پچھلے پانچ سات برس سے پانامہ اور اس سے جڑے سوالات کا جواب دینے کو ہی اپنی سیاست کو محور بنانے پر مجبور ہے۔ یہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی ابھی تک سیاسی مہارت ہے کہ تین سال حکومت میں ہونے کے بعد بھی وہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے کیسز کو بطور ایشو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
پانامہ لیکس کے بعد پنڈورا لیکس بھی سامنے آئے مگر باوجود کوشش کے کسی طرح کا اثر نہیں چھوڑ سکے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک طرف پانامہ سکینڈل ابھی تک موثر ہے مگر باقی کوئی سکینڈل کیوں اس طرح آگے نہیں چل سکا؟
اس کی ایک بڑی وجہ لیکس یا سکینڈل کی نوعیت کے ساتھ ساتھ اس میں بڑے سیاسی رہنما کا براہ راست نام، اس کے بعد سیاسی تحریک، پھر کسی بڑے فورم میں اس کا نوٹس اور اس کے بعد تفتیش، مقدمہ اور سزا۔
پانامہ کے بعد کوئی بھی لیکس اس سارے پیکج کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ زیادہ تر لیکس تو ایک طرح سے جذباتیت اور جلد بازی کا اظہار لگتی ہیں جس کی وجہ سے فائدہ کم اور نقصان ہوتا ہے۔
پانامہ میں ہوئی مہینوں سماعت اور پھر اس کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے روزانہ کے بیانات اور اس کے بعد کے بحث مباحثے لوگوں کی یادداشت میں آج بھی زندہ ہیں۔ دوسری طرف موجودہ لیکس میں لیک کرنے والوں پر زیادہ الزام لگ رہے ہیں۔
سیاست اور سکینڈل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا میں کئی بڑے لیڈر سکینڈلز کی نذر ہوئے۔ سابق صدر امریکی صدر رچرڈ نکسن کے واٹر گیٹ سکینڈل اور پھر اس کے بعد مختلف سکینڈلز کے لیے گیٹ کی اصطلاح عام ہوئی۔
پانامہ کے بعد لیکس کا تذکرہ ہوا۔ لیکس اور سکینڈلز کو سیاسی فائدے کے استعمال کے لیے البتہ موقع محل اور مقصد ہونا ضروری ہے۔
ن لیگ کی طرف سے جو لیکس سامنے آ رہی ہیں وہ صرف بیان بازی تک ہی محدود ہیں۔ نہ تو ان کے ساتھ کوئی سیاسی تحریک کے آثار ہیں اور نہ ہی کسی فورم پر ان کو خاص شنوائی ملی ہے۔ اس کے بجائے ان کے خلاف کارروائیاں ضرور شروع ہو گئی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ نواز شریف کا ملک سے باہر ہونا بھی ہے۔ پر ن لیگ کی طرف سے ان کے لیڈر کے ملک سے باہر ہونے کا دفاع کرنا نہ صرف سیاسی طور پر ایک چیلنج ہے بلکہ اس کا قانونی اور اخلاقی جواز بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔
ن لیگ کی لیکس کی سیاست تو رائے عامہ میں کوئی خاص تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ مستقبل میں ظاہر ہونے والے انکشافات پر بھی ابھی سے سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں۔ اب آگے اگر کوئی اور لیکس سامنے بھی آئے تو حکومت یہی دہرائے گی کہ وہ تو پہلے ہی کہتے تھے۔
ن لیگ کے لیے اب سیاسی میدان ہی اصل حکمت عملی ہو گی۔ اس کا انحصار مریم نواز اور نواز شریف کے کیسز پر ہے۔ جب تک ان کیسز کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک شاید ان کی اس سارے عمل کو مشکوک بنانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
سوال البتہ یہ ہے کہ کیا یہ کوششیں کامیاب ہو گئیں یا اس کے نتیجے میں شک کا رخ ان کے اپنے طرف ہی مڑ جائے گا؟