اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ٹرائل کورٹ کو ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید چھ ہفتوں کا وقت دے دیا ہے جبکہ اس سے قبل ہائی کورٹ نے اس کیس کا ٹرائل 14 دسمبر تک مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کیس کے ٹرائل کے لیے ایڈیشنل جج عطا ربانی نے خط کے ذریعے ہائی کورٹ سے مزید وقت مانگا تھا جس پر ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے مزید چھ ہفتوں کا وقت دے دیا۔
مزید پڑھیں
-
نور مقدم قتل کیس: ٹرائل کا آغاز، استغاثہ کے گواہ کا بیان قلمبندNode ID: 610871
-
نور مقدم قتل کیس: سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے کی تحقیقات کا حکمNode ID: 621256
واضح رہے کہ پاکستان کے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کا 18 جولائی 2021 کی رات کو دارالحکومت اسلام آباد میں قتل ہو گیا تھا۔ اس مقدمے میں ملزم ظاہر جعفر پولیس کی حراست میں ہیں۔
مقدمے کی تفتیش آگے بڑھتے ہی 25 جولائی کو ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی اور گھر کے ملازمین کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا تاہم بعد ازاں عصمت آدم جی کی ضمانت منظور ہو گئی۔
اس کیس میں ملزمان کا ٹرائل جاری ہے، جولائی کے بعد سے اس مقدمے کی تفتیش کے دوران کئی اہم انکشافات ہوئے۔ نور مقدم کے قتل سے کچھ دیر قبل کی سی سی ٹی وی فوٹیج 13 نومبر کو سامنے آئی تو الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے ادارے پیمرا نے اسے نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔

اس دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں نور مقدم کے حق میں متعدد مظاہرے بھی ہوئے اور مقتولہ کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ ایک ’خاموش احتجاج‘ میں اس کیس کا فیصلہ جلد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا لیکن بظاہر لگتا یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ ہونے میں ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔
پاکستان میں قتل کے مقدمات میں ٹرائل التوا کا شکار کیوں ہو جاتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے سینیئر قانون دانوں سے رابطہ کیا۔
اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر قانون اور معروف قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’ٹرائل میں تاخیر کی کئی وجوہات ہیں۔ 1965 اور 1970 کے درمیان جب ہم نے لا کی پریکٹس شروع کی تو ہر سیشن جج پر لازم تھا کہ وہ ایک ماہ میں کم از کم چار قتل کے مقدمات کو نمٹائے۔ پھر اس کے بعد مختلف عوامل کی وجہ سے یہ عمل سست روی کا شکار ہوگیا۔‘
اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ’مدعی اور ملزم کو صلح کا جو حق حاصل ہے اس کی وجہ سے سائلین یہ کہہ کر وکلا کو اگلی تاریخ لینے کا کہتے ہیں کہ ہماری صلح کی بات چیت چل رہی ہے۔‘
’ تاریخیں لینے والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے‘
قتل کے مقدمات کے فیصلے جلد کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں خالد رانجھا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر حالات کو بہتر کرنا ہے تو ہمیں وہ نظام لانا ہوگا جو دنیا بھر رائج ہے۔ دنیا میں قتل کے مقدمات کا جب آغاز ہوتا ہے تو وہ مسلسل چلتا ہے، وہاں تاریخیں نہیں لی جاتیں۔ جب تک یہ یہاں نہیں ہوگا ہم (وکلا) بھی تاریخیں مانگتے رہیں گے۔ یہ تاریخیں لینے والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

عدالت مدعی یا ملزم کے وکیل کے کہنے پر اگلی تاریخ کیوں ڈال دیتی ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’جب تک عدالت، مدعی اور ملزم ایک پیج پر نہ آئیں تو مقدمہ نہیں چل سکتا۔ اگر آئینی ترمیم کے ذریعے جج کے ذمے لگا دیا جائے کہ وہ بہرصورت کیس کو انجام کی جانب بڑھائے تو پھر یہ (التوا) نہیں ہوگا۔‘
مقدمات میں تاخیری حربوں کا استعمال
قومی احتساب بیورو(نیب) کے سابق پراسیکیوٹر اور قانون دان راجا عامر عباس ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں کریمینل ٹرائلز میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ناکافی عدالتیں ہیں۔ عدالتوں کا انفراسٹرکچر بھی بہتر نہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں کا تفتیش کا نظام بھی کافی پیچیدہ ہے جو اس قسم کے مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔‘
’قتل کے مقدمات میں اکثر پولیس والے گواہ ہوتے ہیں، ان کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ پھر وکلا کئی کیسز پکڑ لیتے ہیں اور پھر اپنی ترجیحات کے مطابق کسی ایک کیس میں پیش ہو جاتے ہیں اور دوسرے کیس میں اگلی تاریخ لے لیتے ہیں۔‘
راجا عامر عباس ایڈووکیٹ کے بقول ’بعض اوقات مقدمات میں تاخیری حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آصف علی زرداری کے کیسز 11، 11 سال چلتے رہے اور اس دوران گواہ ادھر ادھر ہوگئے اور ریکارڈ بھی گم ہو گئے۔‘
