بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی: جرمنی کا اسرائیلی تاریخ دان کو ایوارڈ نہ دینے کا فیصلہ
بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی: جرمنی کا اسرائیلی تاریخ دان کو ایوارڈ نہ دینے کا فیصلہ
جمعہ 31 دسمبر 2021 20:41
سریبرینیکا میں آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
جرمنی کی حکومت نے 1995 میں بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے مبینہ انکار کے جواب میں ہولوکاسٹ کے ایک اسرائیلی تاریخ دان کو سرکاری اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق آؤشوِٹس حراستی کیمپ کی تاریخ کے ماہر گیڈیئن گریف کو اعلیٰ سطح پر ایوارڈ سے نوازنے کے فیصلے پر برلن کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جرمن وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں سابق چانسلر انگیلا مرکل کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پروفیسر گریف کو وفاقی جمہوریہ جرمنی کے آرڈر آف میرٹ سے نوازنے کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔ یہ سابقہ وفاقی حکومت کا فیصلہ تھا۔‘
وزارت خارجہ نے بوسنیا ہرزیگووینا کے اندر سربیا کے نیم خودمختار علاقے کی جانب سے سریبرینیکا، جہاں آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا، پر کمیشن کی طرف سے کیے گئے کام کی طرف اشارہ کیا۔
بوسنیا کے ایک اسلامی اسکالر کو بھیجے گئے خط میں، جس کا بوسنیائی زبان کے ذرائع ابلاغ میں حوالہ دیا گیا، جرمن صدر فرانک والٹر سٹین میئر نے ایوارڈ کی تبدیلی کو کمیشن کے سربراہ کے طور پر گریف کے عہدے سے جوڑ دیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سربیا کے قوم پرستوں کی جانب سے 1995 میں سریبرینیکا کی نسل کشی میں ہلاکتوں کی تعداد کو کم کیا ہے۔
وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ تاہم برلن کا گیڈیئن گریف سے ایوارڈ واپس لینے کا فیصلہ ان کی ہولوکاسٹ اور اسرائیل ہجرت کرنے والے جرمن یہودیوں پر تحقیق میں جو خدمات ہیں، ان کے اعتراف کو کم نہیں کرتا۔‘
دوسری جانب گیڈیئن گریف نے جمعرات کو اسرائیلی اخبار ہاریٹز کو بتایا کہ انہیں غیر سرکاری طور پر آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ ایوارڈ وصول نہیں کریں گے-
انہوں نے کہا کہ بوسنیا کے اخوان المسلمین کے ارکان ان کی ساکھ کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں ایوارڈ نہ دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔