اسرائیل کا یہودی آبادکاروں کے لیے تین ہزار گھروں کا منصوبہ، امریکہ کو ’تشویش‘
اسرائیل کا یہودی آبادکاروں کے لیے تین ہزار گھروں کا منصوبہ، امریکہ کو ’تشویش‘
اتوار 24 اکتوبر 2021 19:18
کہا جا رہا ہے کہ آبادکاروں کے لیے گھروں کی منظوری دو قومی حل میں رکاوٹ بنے گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یہودی آباد کاروں کے لیے مغربی کنارے میں نئے گھروں کے معاملے پر اسرائیل ممکنہ طور پر رواں ہفتے پیش رفت کرے گا۔ یہ بات آباد کاری پر نظر رکھنے والے ایک گروپ نے اتوار کو کی ہے۔
خبر رساں ادارے اسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مغربی کنارے میں تقریباً تین ہزار نئے گھروں کے منصوبے پر امریکہ پہلے ہی متفق نہیں ہے۔ جمعہ کو امریکہ نے ممکنہ ’منظوری‘ پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
آباد کاری سے متعلق امور پر نظر رکھنے والے گروپ پیس ناؤ کی حاجیت عفران کا کہنا ہے کہ بدھ کو ایک کمیٹی ممکنہ طور پر دو ہزار 800 رہائشی یونٹس کی منظوری کے لیے ملاقات کرے گی۔ اس اقدام سے ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کی کوششیں مزید پیجیدہ ہو جائیں گی۔
’ان میں سے نصف سے زیادہ گھروں کو حتمی منظوری مل جائے گی، جس کا مطلب ہے کہ تعمیر کا کام آنے والے سال میں شروع ہو جائے گا۔‘
واضح رہے کہ جمعہ کو امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ کو رہائشی منصوبے پر ’تشویش‘ ہے۔
انہوں نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو کہا ہے کہ ’ان یک طرفہ اقدامات سے گریز کریں جو کشیدگی میں اضافہ کریں اور دو قومی حل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو ضائع کر دیں۔‘
فلسطینی غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے کو اپنی مستقبل کی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ وہ علاقے ہیں جن پر 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔
فلسطینیوں کی نظر میں یہ رہائشی یونٹس، جن میں تقریباً سات لاکھ افراد آباد ہیں، امن کے راستے میں بنیادی رکاوٹ ہیں۔
بین الاقوامی برادری کا زیادہ تر حصہ ان آبادیوں کو غیر قانونی مانتا ہے۔
اسرائیل کی نظر میں مغربی کنارہ یہودیوں کے لیے مذہبی اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
حاجیت عفران کے مطابق اسرائیل مغربی کنارے کے ان علاقوں میں فلسطینیوں کے لیے ایک ہزار 600 یونٹس کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے، جو اس کے قبضے میں ہے۔
تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ یہ اقدام مقامی افراد کی وجہ سے لیا گیا ہے نہ کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے جس تعداد میں گھروں کی منظوری دی جائے گی، وہ اس سے کم ہے جس کی گذشتہ کئی برسوں میں فلسطینیوں نے درخواست کی ہے۔