بوسنیا کی جنگ: وہ جو دہائیوں بعد بھی سپردِ خاک نہ ہوسکے
بوسنیا کی جنگ: وہ جو دہائیوں بعد بھی سپردِ خاک نہ ہوسکے
پیر 20 جولائی 2020 22:08
1992 میں نسلی فسادات کے دوران 30 بوسنین مسلمانوں کا سرب فورسز کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
تقریباً 30 سال پہلے بوسنیا اور ہرزیگوینا کے شہر پریادور میں قتل ہونے والے مسلمانوں کو پیر کو سپردِ خاک کیا جانا تھا تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث دہائیوں بعد بھی ان افراد کے اہلِ خانہ اس کا حصہ نہ بن سکے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 1992 میں نسلی فسادات کے دوران 30 بوسنین مسلمانوں کا سرب فورسز کے ہاتھوں قتل ہوا تھا اور انہیں اب شمالی مغرب بوسنیا کے شہر پریادور کے قریب کامکانی نام کے گاؤں میں دفنایا جانا تھا۔
تاہم اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے باعث کئی ملکوں میں نقل و حمل پر پابندی ہے عائد ہے، جس کی وجہ سے قتل ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ آخری رسومات ادا نہ کر سکے اور پیر کو صرف چھ افراد کو سپردِ خاک کیا گیا۔
حراست میں لیے جانے والے افراد کے کیمپ کی ایسوسی ایشن کے سربراہ مرساد دوراتووک نے مقامی چینل این ون کو بتایا کہ 'انہوں نے ۲۰ سال سے زیادہ انتظار کیا، اپنے پیاروں کو سپردِ خاک کرنے کے لیے، اور اب وہ یہ نہیں کر سکتے۔'
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے سال سالانہ ہونے والے بڑے پیمانے کے جنازے میں باقی24 مقتولوں کو سپردِ خاک کیا جائے گا۔
سرجیکل ماسک پہنے ہزاروں افراد نے پیر کو ہونے والی آخری رسومات میں حصہ لیا۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر اس جگہ کو بار بار صاف کیا جارہا تھا، جبکہ بوسنیا کے مفتی حسین کاوازاوچ نمازِ جنازہ پڑھوا رہے تھے۔
بوسنیا کے اعلیٰ حکام نے بھی آخری رسومات میں حصہ لیا۔ تاہم بوسنین سرب افسران میں سے کوئی شریک نہیں ہوا، جوکہ جنگ ختم ہونے کے 25 سال بعد بھی قائم رہنے والی نسلی تفریق کی عکاسی کرتا ہے۔
قتل ہونے والوں میں سے پانچ کی لاشیں 2017 میں وسطی بوسنیا میں ایک بڑی قبر میں ملیں۔ ان میں سے سب سے جوان شخص ایک 19 سالہ لڑکا تھا۔
یہ ان 200 بوسنین مسلمانوں میں سے تھے جنہیں پریادور میں ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا۔
21 اگست 1992 کو انہیں بسوں میں بھر کے قیدی تبادلے کا کہہ کر لے جایا گیا تھا۔
تاہم عدالتوں می بوسنین سرب فورسز کے خلاف دیے جانے والے بیانات کے مطابق ایک جگہ پر پہنچ کر انہیں بس سے اتارا گیا اور مار دیا گیا۔