Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز کے لیے ’پولیس ناکے‘، ’پاکستان آنے کی خوشی دُکھ بن جاتی ہے‘

دلاور خان پہلے فرد نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا بلکہ یہ سلسلہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
’وزیراعظم کہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور جب ہم پاکستان پہنچتے ہیں تو ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی پولیس ہماری جمع پونجی چھیننے کے درپے ہو جاتی ہے۔‘
یہ کہنا ہے سوات کے رہائشی دلاور خان کا جو گذشتہ ماہ سعودی عرب سے پاکستان واپس پہنچے اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی پولیس ناکے پر روک لیے گئے۔ پولیس اہلکاروں نے نہ صرف ان کے سامان کی تلاشی لی بلکہ ’تنگ کیا‘ اور ان کو کچھ دے دلا کر جان چھڑانا پڑی۔
دلاور خان پہلے یا واحد فرد نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا بلکہ یہ سلسلہ کئی ماہ سے جاری ہے کہ صبح سویرے یا پھر رات گئے اسلام آباد ایئر پورٹ پر پہنچنے والی پروازوں کے مسافروں کو ایئر پورٹ کے باہر پولیس ناکے پر روک کر تنگ کیا جاتا ہے اور رشوت وصول کی جاتی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں دلاور خان نے کہا کہ ’جب ہم باہر سے محنت مزدوری کر کے اپنے وطن واپس آتے ہیں اور ٹی وی پر عمران خان کے منہ سے اپنی تعریفیں سن سن کے پھولے نہیں سما رہے ہوتے تو پہلا جھٹکا تو امیگریشن عملے کے رویے سے لگ جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کسٹم والے الگ تنگ کرتے ہیں۔ جب سب جھنجھٹ سے جان چھڑا کر باہر نکلتے ہیں تو پولیس تنگ کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ ایسے میں پاکستان واپس آنے کی خوشی دکھ میں بدل جاتی ہے۔‘
دلاور خان کے بقول ’جب سفر شروع کرتے ہیں تو اپنی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر پیٹ کاٹ کر بچوں اور رشتہ داروں کے لیے تحفے تحائف لیتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو اگر کوئی چیز پسند آ جائے تو وہ دینے کا تقاضا بھی کرتے ہیں اور پیسے الگ سے مانگتے ہیں۔‘
دلاور خان اور دیگر اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ پیش آنے والے اس سلوک کا سلسلہ شاید کبھی نہ رکتا لیکن اتفاق سے پولینڈ کے دورے سے واپس لوٹنے والے پارلیمانی وفد میں شامل سینیٹر دوست محمد خان، سینیٹر کامران مرتضیٰ اور سینیٹر فدا محمد نے اوورسیز پاکستانیوں کو لٹتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
ان سینیٹرز نے معاملے کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں اٹھا دیا اور کمیٹی نے اسلام آباد پولیس سے ایک ہفتے میں رپورٹ مانگ لی ہے۔

دلاور خان کہتے ہیں ’ہم ٹی وی پر عمران خان کے منہ سے اپنی تعریفیں سن سن کے پھولے نہیں سما رہے ہوتے۔۔۔‘ فائل فوٹو: روئٹرز

سینیٹر دوست محمد خان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پہلے ایف آئی اے والوں نے مسافروں کا سامان کھنگالا، پھر کسٹم والوں نے اپنا کام دکھایا چلیں جیسے بھی سہی یہ ان کا کام تھا۔ لیکن حیرت تو اس وقت ہوئی جب اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے ایئر پورٹ سے باہر آنے والی تقریباً ہر گاڑی کو روک کر ان کے سامان کی تلاشی لینا شروع کر رکھی تھی۔‘
سینیٹر فدا محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے باقی ساتھی تو پہلے نکل آئے تھے جبکہ میں ان سے گھنٹہ بعد باہر آیا تب بھی پولیس والوں نے ان کو روک رکھا تھا اور ان کے سامان کی تلاشی لے رہے تھے۔ سمجھ نہیں آتی جو سامان بیرون ملک سے تلاشی اور سکیننگ کے بعد جہاز کے ذریعے پہنچا، پھر اس کی تلاشی اور سکیننگ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہوئی اور باہر آیا۔ پولیس اس کی تلاشی کیوں اور کس قانون کے تحت لیتی ہے؟‘
اس معاملے پر اسلام آباد پولیس کا موقف ہے کہ وفاقی پولیس کے جرائم روکنے کے ایس او پیز میں ناکہ لگا کر تلاشی لینا شامل ہی نہیں تاہم یہ واقعہ پولیس کی کمان تبدیل ہونے سے پہلے کا ہے اس لیے اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘
اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن اویس احمد کے مطابق ’اسلام آباد پولیس نے ناکے لگانے کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ جرائم روکنے کے لیے کسی بھی جگہ پر ناکہ لگانا ہمارے ایس او پیز کا حصہ نہیں۔ ایئر پورٹ کے باہر ناکے کا تو کوئی جواز بھی نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’متعلقہ تھانے سے معلومات لیں گے کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس وقت کون کون سے اہلکار وہاں تعینات تھے۔ اگر ان میں سے کسی نے بھی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے از خود ناکہ لگایا ہوگا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

شیئر: