Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے چھ ماہ، مالی بحران اور انخلا

گزشتہ چھ ماہ میں 13 سال سے 18 سال تک کی لڑکیوں کے سیکنڈری سکولز نہیں کھولے جا سکے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں طالبان کو کنٹرول سنبھالے چھ ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے تاہم ملک بدستور مالی بحران کا شکار ہے اور ہزاروں کی تعداد میں افغان شہری وہاں سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں کئی تبدیلیاں آئیں جن میں سب سے زیادہ خواتین کی ملازمتیں اور تعلیم متاثر ہوئی۔
اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے کئی ایسے وعدے کیے جن پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔
طالبان نے کہا تھا کہ وہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے خلاف نہیں تاہم گزشتہ چھ ماہ میں 13 سال سے 18 سال تک کی بچیوں کے لیے سیکنڈری سکولز نہیں کھولے جا سکے۔
طالبان کے آنے کے بعد سرکاری محمکوں میں ملازمت کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد گھر بیٹھ گئی جبکہ نجی شعبے نے بھی خواتین ورکرز کو کم کیا۔
ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کے لیے سب سے مشکل اور دشوار کام خالی خزانے کو بھرنا تھا کیونکہ افغانستان کے تقریباً نو ارب ڈالر کے اثاثے بیرون ملک ہیں، جن میں سے سات ارب ڈالر امریکہ میں جبکہ باقی کے اثاثے جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔
طالبان تاحال امریکہ اور یورپ کو یہ رقم واپس کرنے کے لیے قائل نہیں کر سکے۔
گزشتہ ہفتے امریکہ میں منجمد افغان اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم صدر بائیڈن نے نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا اعلان کیا جس کے خلاف کابل میں مظاہرے بھی کیے گئے۔
دوسری جانب طالبان کی پالیسیوں سے نالاں اور مالی بحران سے پریشان ہزاروں افغان شہری ملک چھوڑنے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان نے اپنی سرحدوں پر نگرانی سخت کی ہے جس کے باعث ویزہ نہ رکھنے والے افغانوں کو بارڈر پار کرانے کے لیے سمگلرز ہزاروں ڈالرز وصول کر رہے ہیں۔

شیئر: