Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خاتون عالیہ الشریف ’نظرانداز گھوڑوں‘ کی بحالی کے لیے کوشاں

عالیہ الشریف کے مطابق گھوڑوں کو وہ توجہ نہیں ملتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
ریس میں حصہ لینے والے گھوڑوں کا کیریئر جب ختم ہو جاتا ہے تو ان کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے تاہم عالیہ الشریف کے اصطبل میں ان خوبصورت گھوڑوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 22 برس کی عالیہ الشریف نے اپنی زندگی گھوڑوں کے درمیان گزاری اور سات برس تک بطور شو جمپر ان کی تربیت ہوئی۔ اب وہ رائز ایکوئن انیشی ایٹیو نامی تنظیم کے ذریعے جانوروں کی فلاح اور تربیت کے حوالے سے اپنا پیغام پھیلا رہی ہیں۔
عالیہ الشریف نے بتایا کہ اگر وہ ان گھوڑوں کی دیکھ بھال نہ کرتیں تو گھوڑے اصطبلوں میں پڑے رہتے۔
’میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو گھوڑوں کی افزائش اور ریسنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ میں گھوڑوں کے ساتھ پلی بڑھی ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ گھڑ دوڑ ختم ہونے کے بعد کیسے ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ کو تو وہ توجہ نہیں ملتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔‘
عالیہ الشریف نے بتایا کہ’جب مجھے پہلی مرتبہ گھوڑوں کے رویوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو میں نہیں جانتی تھی کہ کس سے مدد لوں۔ زیادہ تر مشورے یہی ہوتے تھے کہ میں انہیں پیٹوں یا ان پر چِلاؤں۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میں بہت زیادہ جذباتی ہوں۔‘
عالیہ الشریف نے گھوڑوں کے لیے جو جگہ بنائی ہے وہ وہاں آزاد گھومتے پھرتے اور چرتے ہیں۔
عالیہ الشریف نے گھوڑوں کی نفسیات کا ڈپلومہ لیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈپلومہ لینے سے قبل ان کو معلوم تھا کہ اکثر گھوڑوں کے ساتھ نامناسب سلوک کیا جاتا ہے۔
وہ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے ماہر ٹرینرز سے تربیت لی۔ عالیہ گھوڑوں کی مدد کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں اور لوگوں کو گھڑ سواری بھی سکھاتی ہیں۔

عالیہ الشریف کو یہ دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے کہ گھوڑوں کی بحالی میں بہتری آئی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

’میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ گھوڑے کیسے سوچتے ہیں۔ گھوڑوں کی پہلی جبلت ہی اپنے آپ کا تحفظ ہے نہ کہ تجسس۔ میں ایک تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہوں اور ان کا خوف ختم کر کے ان میں تجسس پیدا کرنے میں مدد کرتی ہوں۔‘
یونیورسٹی کی 22 برس کی طالبہ ماریہ موسیٰ عالیہ الشریف سے گھڑ سواری سیکھ رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گھڑ سواری سیکھنے کے وقت دیگر ٹرینرز جو چیز ان کو ہاتھ میں دیتے، وہ ایک چابک ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’گھوڑے کو پیٹنا ان کے لیے آسان نہیں تھا، میری غلطی کی وجہ سے گھوڑا بدک جاتا اور یوں اپنی غلطی کی وجہ سے گھوڑے کو پیٹنا مجھے صحیح نہیں لگ رہا تھا۔‘
عالیہ الشریف نے ٹرینر کے سفر کا آغاز ایک تین سالہ گھوڑے کے ساتھ کیا، گھڑ دوڑ میں اس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔

عالیہ الشریف کا کہنا ہے کہ ان کو گھوڑوں کی صحت سے متعلق بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا (فوٹو: عرب نیوز)

عالیہ الشریف کو یہ دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے کہ ان گھوڑوں کی بحالی کے عمل میں بہتری آئی ہے۔
عالیہ الشریف کا کہنا ہے کہ انہیں گھوڑوں کی صحت سے جڑے بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے کچھ کا رویہ جارحانہ اور خوفناک ہوتا تھا۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گھوڑوں کے رویوں سے نمٹنے طریقے سیکھ لیے ہیں۔
عالیہ الشریف کے مطابق بہت سارے لوگ میرے مقصد سے متفق ہیں اور جانوروں کی مدد اور ان کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔

شیئر: