سعودی عرب کے یوم تاسیس کی اندرونی کہانی
کئی نسلوں سے مورخین اور مصنفین نے نادانستہ طور پر یہ مفروضہ پھیلاتے رہے ہیں کہ موجودہ مملکت سعودی عرب کی پیش رو پہلی سعودی ریاست کی بنیاد سال 1744 میں رکھی گئی تھی۔
عرب نیوز کے مطابق درحقیقت مملکت کی بنیاد سے متعلق نئے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تاریخ میں ابتدائی 17 سال شامل نہیں کیے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 1744 کے واقعات بہت اہم تھے، جس سال درعیہ کے امام محمد بن سعود نے شیخ محمد بن عبدالوہاب کو جگہ کی پیشکش کی تھی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست اور عقیدے کے درمیان مشترکہ مقصد کے اس تسلیم شدہ تاریخی لمحے کی اہمیت نے پہلی سعودی ریاست کی زیادہ پیچیدہ اور گہری جڑوں کو دھندلا دیا۔
مملکت کے ان اہم ابتدائی سالوں کی درستگی کے لیے یوم تاسیس تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد 1727 کو یوم تاسیس کے حقیقی سال کے طور پر منانا اور سعودیوں کو ماضی کے متعلق شکرگزار بنانا ہے، جو کئی لوگوں کی سوچ سے بھی زیادہ ذرخیز ہے۔
1727 میں امام محمد بن سعود تخت نشین ہوئے اور اپنے ساتھ تین صدیوں قبل اپنے پیشروؤں کی قائم کردہ شہری ریاست کو ایک ایسی قوم کے دارالحکومت میں تبدیل کرنے کا خواب لے کر آئے جو اپنے عروج پر جزیرہ نماعرب کے بیشتر علاقوں میں امن اور استحکام لائے گی۔
1744 سے 1727 تک تاریخ کی از سرِ نو تصحیح وسیع تاریخی تحقیق کا نتیجہ ہے، جو نئے ’سعودی تاریخی سکول‘ کے پاس موجود تاریخی وسائل کا مطالعہ کرنے کے بعد کی گئی ہے۔
درعیہ گیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تاریخی تحقیق و مطالعات کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر بدران الحنین نے کہا کہ ’بہت سے مورخین نے ریاست کے عروج کو شیخ محمد بن عبدالوہاب کی آمد سے جوڑا ہے اور امام محمد بن سعود کی حکومت کے ابتدائی دور اور اس سے پہلے کے دور کو نظر انداز کیا ہے حالانکہ یہ ریاست کا ابتدائی دور تھا۔‘
ڈاکٹر بدران نے مزید کہا: ’تاریخی واقعات پر نظرثانی اور ان کی ازسرنو تشریح ایک فکری مظہر ہے، جو دنیا کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے۔ گذشتہ تحریروں کو ایسے فیصلے اور آرا سمجھا جا سکتا ہے جو نظر ثانی یا نئے نتائج تک پہنچنے سے نہیں روکتے۔‘
آج کوئی بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا کہ علیحدہ ریاست کی طرف طویل سفر کب شروع ہوا۔ راستے کا پہلا مخصوص سنگ میل سال 430 ہے جب بنو حنیفہ قبیلے نے بحیرہ احمر کے ساحل پر حجاز میں اپنے علاقے سے زیریں نجد میں الیمامہ میں ہجرت کی۔
یہاں کاروان کے کئی اہم راستوں کے سنگم پر وہ قبیلہ آباد ہوا جس میں آل سعود کا حکمران گھرانا پھلا پھولا، جس نے حجر (جدید دور کے ریاض) کی بنیاد رکھی، تجارت کی اور زرخیز وادی میں فصلیں اگائیں۔ وقت آنے پر اس کا نام وادی حنیفہ پڑا۔
ظہور اسلام کے ساتھ ہی بنو حنیفہ نے پہلی بار عالمی تاریخ کے سٹیج پر قدم رکھا۔
628 عیسوی میں، پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے چھ سال بعد انہوں نے مختلف عرب حکمرانوں کو خطوط بھیجے اور انہیں ’اسلام‘ قبول کرنے کی دعوت دی۔
اس وقت بنو حنیفہ کے حکمران ثمامہ بن اثال تھے، جن کا روحانی سفر ابتدائی رد سے لے کر اسلام کی دلی قبولیت تک کے سفر کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔
تاریخی لحاظ سے الیمامہ اگلے 800 سالوں میں زیادہ ترغیر فعال رہا۔ یہ جابر اخدہیر خاندان کے دور میں برداشت کی جانے والی معاشی مشکلات سے بچنے کے لیے غفلت اور بڑی ہجرت کا سیاہ دور تھا، جو نویں صدی میں نجد میں عارضی طور پر نمایاں ہوا۔
تاہم تقدیر ایک صبر آزما قوت ہے، اور15 ویں صدی تک بالآخر بنو حنیفہ کے اثر و رسوخ کی واپسی کا وقت آ گیا۔
کئی نسلوں قبل اس قبیلے کا ایک حصہ مشرق کی طرف ہجرت کر کے خلیج عرب کے ساحلوں پر آباد ہو گیا تھا، لیکن 1446 میں بنو حنیفہ کے الدروع قبیلے کی شاخ مرادا کے رہنما مانع المرید، حجر کے حکمران اپنے چچا زاد بھائی ابن دیرہ کی دعوت پر اپنی قوم کو واپس عرب کے قلب میں لے گئے۔
انہوں نے ساحل پر جس بستی کی بنیاد رکھی اس کا نام اپنے قبائلی نام الدروع کے نام پر درعیہ رکھا تھا۔ اب انہوں نے وادی حنیفہ کے زرخیز کناروں پر ایک نئی درعیہ قائم کی۔
مورخ ڈاکٹر بدران الحنین کے الفاظ میں المریدی کی آمد نے ’پیغمبرانہ ریاست اور خلافت راشدین کے بعد جزیرہ نما عرب کی تاریخ کی سب سے بڑی ریاست کے قیام کا سنگ بنیاد رکھا۔‘
اگلی اہم پیش رفت سے پہلے مزید 300 سال گزر گئے۔ 1720 میں سعود بن محمد نے درعیہ کی قیادت سنبھالی، جن کے نام پر سعودی شاہی خاندان کا نام پڑا۔
آج مورخین پہلی سعودی ریاست کے آغاز کی تاریخ 1727 لکھتے ہیں، جب سعود بن محمد کے صاحبزادے محمد شہری ریاست کے حکمران بنے۔
مورخ الحنین لکھتے ہیں: ’انہوں نے غیر معمولی حالات میں اقتدار سنبھالا تھا۔‘ درعیہ اندرونی تقسیم کا شکاری تھی اور جزیرہ نما عرب میں پھیلنے والی طاعون نے نجد میں بہت سی جانیں لے لی تھیں۔ اس کے باوجود ’امام محمد اپنے دور حکومت میں درعیہ کو متحد کرنے، علاقائی اور جزیرہ نما عرب کی سطح پر سلامتی اور امن کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ ڈالنے میں کامیاب رہے۔‘
’پہلی سعودی ریاست کا منصوبہ 1727 میں شروع ہوا اور ان کے بعد ان کے بیٹوں نے اس کو سنبھالا۔ ہمیں اس کہانی سے جو چیز یاد رکھنی چاہیے، وہ صدیوں کے اتحاد کی کمی کے بعد اتحاد، سلامتی اور امن ہے۔ ‘
بالآخر، یہاں ایک ایسے رہنما تھے جو زمانہ حال سے بہت آگے کا وژن رکھتے تھے۔ جن کا عزم تعلیم، ثقافت اور سلامتی اور اسلام کے حقیقی عقیدے سے وفاداری پر مبنی ایک نئی ریاست کی تشکیل تھا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب نے جو ریاست بنائی وہ متحرک اور سیاسی اور معاشی طور پر تیزی سے طاقتور ہوتی ہوئی ریاست تھی۔
قریبی گاؤں العینیہسے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی عالم شیخ کو اس بات کی تشویش بڑھ گئی تھی کہ عرب دنیا کے بہت سے لوگ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ کر قبل از اسلام کے بدعتی طریقے اپنا رہے ہیں۔
اصلاحات متعارف کرانے کی ان کی کوششوں کو العینیہمیں دشمنی کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہیں درعیہ میں جائے پناہ مل گئی۔
الحنین نے کہا کہ ’شیخ محمد بن عبدالوہاب کی درعیہ ہجرت امام محمد بن سعود کی پالیسیوں کا فطری نتیجہ تھی۔‘
امام مذہبی شخصیت کے طور پر مشہور تھے اور ان کے دو بھائی ثنیان اور مشاری اور ان کے بیٹے عبدالعزیز ان لوگوں میں شامل تھے جن کے العینیہمیں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ رابطے تھے۔
شیخ محمد نے العینیہکو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک امام محمد نے انہیں درعیہ آنے کی دعوت نہیں دی اور پھر یہ ایک ایسی ریاست تھی، جو شیخ کے مذہبی مشن کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
امام محمد نے اپنے حصے کے طور پر ’اس اصلاح پسند مشن کی حمایت کرتے ہوئے دیکھا کہ یہ اس ریاست کے اصولوں سے متفق ہے، جس کے قیام کے لیے وہ کام کر رہے ہیں، بالخصوص اس کے مذہبی پہلو سے۔‘
مختصر یہ کہ صرف شیخ اور امام کا اتحاد ہی پہلی سعودی ریاست کی بنیاد نہیں تھا بلکہ یہ اس ریاست کا سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط وجود تھا، جس کی وجہ سے اصلاح کا پیغام پھیلانا ممکن ہوا۔
لحنین نے اس بات پر زور دیا کہ 1727 کو باضابطہ طور پر قیام کے سال کے طور پر تسلیم کرنے کے فیصلے کو کبھی بھی اس طرح سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ سعودی عرب کی بادشاہت کی بنیاد رکھتے وقت مذہب کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ درست نہیں ہے۔ اس کا مقصد محض ریاست کے قیام یعنی امام محمد بن سعود کے درعیہ میں اقتدار میں آنے کی ایک سیاسی تاریخ کا تعین کرنا ہے۔ کیونکہ ریاست کے عروج اور قیام کے حوالے سے متعدد غلط پالیسیاں اور آرا پیدا ہوئی تھیں۔‘
’مزید برآں ریاست نے اپنے آئین میں یہ شرط عائد کی ہے کہ سعودی عرب ایک عرب اسلامی ریاست ہے، جس کا مذہب اسلام ہے اور جس کا آئین خدا کی کتاب اور اس کے نبی کا سنت ہے۔‘
الحنین اس حوالے سے بھی واضح ہیں کہ یوم تاسیس قومی دن کا متبادل نہیں ہے، جو 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے بلکہ اس کا لازمی تکمیلی دن ہے۔
نہوں نے کہا: ’یوم تاسیس سعودی قومی دن کا متبادل نہیں ہے، جو 1932 میں مملکت سعودی عرب کے اتحاد کی یاد دلاتا ہے۔ یوم تاسیس کا مقصد سعودی ریاست کی تاریخ کے آغاز کو نئے سرے سے تسلیم کرنا ہے، جو مملکت کی گہری تاریخی جڑوں کی یاد دلاتا ہے۔‘
الحنین کے مطابق اگرچہ اس سال یعنی 1727کے متعلق کوئی شک نہیں ہے لیکن امام محمد کے دور کے آغاز کی صحیح تاریخ، تاریخ میں گم ہو گئی ہے۔
22 فروری کو یوم تاسیس کے طور پر صرف اس لیے منتخب کیا گیا کہ1727 کے آغاز میں امام محمد کے دور حکومت کے پہلے مہینوں میں متعدد اہم واقعات رونما ہوئے تھے۔
امام محمد ابن سعود کی اہم ترین کامیابیاں
-
۔ اپنی حکومت میں درعیہ کو متحدہ کیا اور اس کے استحکام میں اپنا حصہ ڈالا
-
۔ اندرونی معاملات کا انتظام کیا اور درعیہ برادری کو مضبوط کیا
-
۔ علاقائی استحکام کو یقینی بنایا
-
۔ بیرونی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک درعیہ دیوار تعمیر کی
-
۔ اتحاد کی مہم شروع کی
-
۔ کسی بھی بیرونی اثر و رسوخ سے سیاسی آزادی حاصل کی
-
۔ ملک کے وسائل کو منظم کیا
-
۔ نجد کی اکثریت کو متحد کیا
-
۔ حج اور تجارتی راستوں کو محفوظ بنایا