Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھری عدالت، ملزمان کو لانے میں مشکل اور نور مقدم کے رشتہ داروں کے نعرے

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت پر سب کی نظریں مرکوز تھیں۔
بدھ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پاکستان کی تاریخ میں دل دہلا دینے والے قتل کے مقدمے میں سے ایک کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت کے باہر سخت سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔ 
14 اکتوبر کو شروع ہونے والے مقدمے کا ٹرائل چار ماہ میں مکمل ہوا اور اس کیس کو تیز ترین ٹرائل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کو کمرہ عدالت کے باہر غیر ملکی اور ملکی میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد اور سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کو دیکھ کر وکلا کیس کا ٹرائل تیزی سے مکمل ہونے پر بھی خوشگوار حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ 
صبح گیارہ بجے کمرہ عدالت میں جب مرکزی ملزمان کو پیش کیا گیا تو جج عطا ربانی نے تمام وکلا اور میڈیا نمائندگان سمیت غیر متعلقہ افراد کو عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کی اور 10 سے 15 منٹ تک ملزمان سے کچھ بات چیت کی۔
جج اور ملزمان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی وہ اِن کیمرا تھی۔ جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم کے والدین اور گھریلو ملازمین سے مقدمے کے حوالے سے کچھ سوالات کیے اور ان کو ڈیڑھ بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔  
فیصلے سے ایک گھنٹہ قبل ہی کمرہ عدالت وکلا اور میڈیا نمائندگان سے بھر چکا تھا جبکہ عدالت کے باہر بھی سینکڑوں افراد موجود تھے۔
جج عطا ربانی نے کمرہ عدالت میں صورتحال کو دیکھا اور اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے۔ انہوں نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کو اپنا کوئی ایک نمائندہ چیمبر میں بھیجنے کے لیے کہا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز جرنلسٹس ایسوی ایشن کے صدر ثاقب بشیر جج عطا ربانی کے چیمبر میں گئے اور وہاں کمرہ عدالت میں رش بڑھنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔
جج نے ملزمان کے لیے کمرہ عدالت میں جگہ بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ کمرہ عدالت کی دائیں جانب صحافی کھڑے ہو جائیں تاکہ ملزمان کے لیے راستہ بنایا جائے۔ جج نے دائیں جانب موجود خواتین وکلا اور دیگر خواتین کو بائیں جانب کھڑے ہونے کی ہدایت کی۔  

نور مقدم کے والد نے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈیڑھ بجے جج عطا ربانی عدالت میں آئے اور ملزمان کے نام پکارنا شروع کر دیے۔ اس وقت ملزمان کمرہ عدالت کے باہر رش میں پھنسے ہوئے تھے اور عدالتی عملہ ان کے لیے راستے بنانے کی کوشش میں مصروف تھا۔
جج عطا ربانی نے ملزمان کے نام پکارتے ہوئے کہا کہ ’عصمت آدم جی، جمیل، طاہر ظہور، دلیم کمار، ثمر عباس، امجد، وامک ریاض ان کو پیش کیا جائے۔‘
طاہر، ظہور، ثمر عباس سمیت تھراپی ورکس کے دیگر ملازمین کمرہ عدالت میں ہی موجود تھے اور کچھ ملزمان عدالت کے اندر رش کے باعث باہر ہی کھڑے تھے۔ جج عطا ربانی نے کہا کہ ’یہ تمام ملزمان بری کیے جاتے ہیں۔‘ جس کے بعد تھراپی ورکرز نے کمرہ عدالت میں خوشی کا والہانہ اظہار کیا اور نعرے بھی بلند کیے۔ عدالتی عملے نے سب کو خاموش رہنے کو کہا۔  
جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا نام پکارا اور کہا ’ڈیتھ سینٹنسڈ‘ جس پر کمرہ عدالت میں موجود نور مقدم کے رشتہ داروں اور دوستوں نعرے تکبیر بلند کیے اور ساتھ ہی جج نے افتخار اور جان محمد کا نام پکارتے ہوئے دس، دس سال قید کی سزا سنائی۔  
فیصلہ سناتے وقت کمرہ عدالت میں رش اور شور کے باعث واضح سنائی نہیں دے رہا تھا اور نور مقدم کے رشتہ دار یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ مرکزی ملزم کے والدین کو کیا سزا ہوئی۔
مدعی شوکت مقدم کی درخواست پر فیصلہ دوبارہ پڑھ کر سنایا گیا اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر بھی اس وقت تک روسٹرم کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جج عطا ربانی نے دوبارہ فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ظاہر جعفر کو سزائے موت، جان محمد اور افتخار کو دس، دس سال قید کی سزا، باقی سب بری ہیں۔‘  
اس فیصلے کو سن کر عدالت میں موجود نور مقدم کے رشتہ دار کچھ زیادہ خوش نہ تھے اور کچھ خواتین نے ان کے وکلا پر جملے کسے اور کہا کہ ’پیسے لے کر ملزمان کو بچا لیا ہے، ایک عدالت اوپر بھی لگی ہوئی ہے۔‘ 
مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ان کے والد ذاکر جعفر کمرہ عدالت میں موجود تھے تاہم باپ اور بیٹے نے نہ ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی۔  

’پاکستان کی بیٹیوں کو محفوظ بنانے کے مشن میں کامیاب ہوا‘ 

مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم فیصلے کے بعد کافی مطمئن نظر آئے اور مرکزی ملزم کو سزائے موت پر انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔

مدعی کے وکیل شاہ خاور نے بھی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی ملزم کو سخت ترین سزا دی گئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’مرکزی ملزم کو سزائے موت دی گئی، اس کے ساتھ صحیح انصاف ہوا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ جنگ پاکستان کی بیٹیوں کے لیے لڑ رہا تھا کہ وہ محفوظ رہیں۔ وہ گھروں، دفتروں میں باہر، جہاں بھی ہیں محفوظ رہیں اور یہ میرے لیے اہم مشن تھا اور ملزم کو سزائے موت ملنا میرے لیے اطمینان بخش ہے۔‘  
شوکت مقدم نے ساتھ ہی یہ بھی عندیہ دیا کہ ’دیگر ملزمان جن کو بری کیا گیا ہے ان کے حوالے سے وکلا سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔‘  
مدعی کے وکیل شاہ خاور نے بھی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم مطمئن ہیں کہ مرکزی ملزم کو سخت ترین سزا دی گئی اور جنہوں نے معاونت کی انہیں بھی دس، دس سال قید کی سزا دی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم متوفی نور مقدم کو تو واپس نہیں لاسکتے لیکن آج اس فیصلے سے ان کی روح کو اطمینان پہنچا ہے۔‘ 

شیئر: