جمعرات کو اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کا فیصلہ سنایا جس میں 12 میں سے تین ملزمان کو سزا سنائی جبکہ باقی نو افراد کو بری کر دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کے تحریر کیے گئے 6 صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق دفعہ 302 کے تحت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت کے ساتھ دیگر دفعات میں بھی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب مختصر تحریری فیصلے کے مطابق ظاہر جعفر مقتولہ کے اہل خانہ کو پانچ لاکھ روپے معاوضہ بھی ادا کریں گے، معاوضہ ادا نہ کرنے کی صورت میں چھ ماہ مزید قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔
اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ سیشن جج عطا ربانی نے منگل کو حتمی دلائل مکمل ہونے اور وکلا کی جانب سے جواب الجواب کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں گذشتہ برس عید الضحیٰ سے ایک روز قبل سابق سفیر شوکت مقدم کی 28 سالہ بیٹی کے بہیمانہ قتل نے عوام کی توجہ حاصل کر رکھی ہے۔
20 جولائی کو واردات ہونے کے بعد کیس کے ٹرائل کا اکتوبر میں آغاز ہوا جو چار ماہ میں اختتام پذیر ہوا۔
نور مقدم کی کہانی
یہ 19 جولائی کا دن تھا۔ اسلام آباد میں پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ عید سے دو روز قبل تیاریوں میں مصروف تھے اور اسی سلسلے میں وہ اسلام آباد اپنی رہائش گاہ سے خریداری کے لیے مارکیٹ روانہ ہوئے۔
شام کو گھر لوٹنے پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم گھر میں موجود نہیں ہیں۔ نور کے ساتھ موبائل پر رابطہ نہ ہونے کے بعد انہوں نے بیٹی کے دوستوں سے رابطہ کیا اور نور مقدم کی تلاش شروع کر دی۔
20 جولائی کی صبح ظاہر جعفر نے نور مقدم کے والدین کو کال پر بتایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
عیدالضحیٰ سے ایک دن قبل 20 جولائی 2021 کو رات 10 بجے نور مقدم کے والد شوکت مقدم کو پولیس کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کا قتل ہو گیا ہے، وہ فوری تھانہ کوہسار پہنچیں۔ جہاں سے پولیس ان کو لے کر اسلام آباد کے ایف سیون فور میں ملک کے معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر لے گئی، جہاں نور مقدم کی سر کٹی ہوئی لاش کی شناخت کی گئی۔
پولیس نے موقع سے ہی ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کو مبینہ طور پر آلۂ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔
ابتدا میں یہ خبر ٹی وی سکرینوں اور اخبارات میں بس اتنی ہی جگہ بنا سکی جو ایک معمول کی جرم کی خبر کو ملتی ہے۔ لیکن مقتولہ کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر جب اس سنگین واقع سے متعلق آواز اٹھانا شروع کی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر کوئی نور مقدم کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بارے میں بات کرنے لگا اور معاملہ اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچا اور وزیراعظم عمران خان نے اس کیس کا نوٹس لے لیا۔
اس قتل کے وقت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین عید الضحیٰ منانے کے لیے کراچی میں موجود تھے جنہیں اسلام آباد پولیس نے 24 جولائی کو جائے وقوعہ پر موجود ملازمین سمیت جرم کے شواہد چھپانے اور اعانت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
26 جولائی کو وفاقی وزارت داخلہ نے ملزم ظاہر جعفر کا نام بلیک لسٹ میں ڈالتے ہوئے تمام ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ملزمان کے نام 10 اگست کو ای سی ایل میں ڈال دیے گئے۔
عدالت میں چالان جمع ہونے کے تقریباً ایک مہینے بعد 14 اکتوبر کو تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی اور ٹرائل کا باضابطہ آغاز ہوا۔
اس سے قبل ملزمان نے اسلام آباد کی مقامی عدالت اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں فرد جرم عائد کرنے سے قبل استغاثہ سے شواہد کی تفصیلات اور دستاویزات دینے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔
ٹرائل کے دوران مرکزی ملزم نے متعدد بار عدالت میں نازیبا الفاظ کا استعمال کیا اور پولیس سے ہاتھا پائی بھی ہوئی۔