نور مقدم کیس: مرکزی ملزم کے والدین اور دیگر شریک ملزمان کو کیوں بری کیا گیا؟
نور مقدم کیس: مرکزی ملزم کے والدین اور دیگر شریک ملزمان کو کیوں بری کیا گیا؟
جمعرات 24 فروری 2022 17:44
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت نے تھیراپی ورکس کے سی ای او کی بریت کی وجہ کال ریکارڈ ڈیٹا قرار دی (فوٹو اے ایف پی)
اسلام آباد کی ایڈشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرد یا ہے۔ مقدمے میں نامزد 12 ملزمان میں سے 9 ملزمان کو بری، جبکہ مرکزی ملزم کو سزائے موت، چوکیدار اور مالی کو دس دس سال تک قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں مرکزی ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، خانصامہ اور تھیراپی ورکس کے سی ای او سمیت چھ ورکرز کو بری کر دیا گیا ہے۔
مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے مرکزی ملزم کے والدین پر اعانت جرم اور شواہد چھپانے کا الزام عائد کیا گیا تھا، تاہم عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے کے مطابق پراسیکیوشن یہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عدالتی فیصلے میں والدین کے متعلق لکھا گیا ہے کہ ’استغاثہ کے شواہد کے مطابق مقتولہ نور مقدم 18 جولائی 2021 کو ظاہر جعفر کے گھر آئیں 20 جولائی کی رات قتل ہونے تک وہ وہاں پر موجود رہیں۔ تاہم یہ ایک تسلیم شدہ حقیقیت کے ہے کہ اس دوران ملزم کے والدین گھر پر موجود نہیں تھے اور وہ کراچی میں تھے۔ پراسیکیوشن کے مطابق ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے علم میں تھا کہ ان کے بیٹے نے قتل کیا ہے اور پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے والدین نے اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش کی اور یہ ثابت کرنے کے لیے پراسیکیوشن نے کال ریکارڈ ڈیٹا کو بطور ثبوت پیش کیا۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’کال ریکارڈ ڈیٹا کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ذاکر جعفر، عصمت آدمی جی کراچی میں موجود تھے اور وہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور شریک ملزم طاہر ظہور کے ساتھ رابطے میں تھے۔‘
فیصلے کے مطابق ’مرکزی ملزم اور والدین کے درمیان ہونے والی کالز کا کوئی ٹرانسکرپٹ یا پیغامات ریکارڈ پر موجود نہیں ہیں جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مرکزی ملزم اور والدین کے درمیان کیا گفتگو ہوئی۔ مرکزی ملزم اور والدین کے درمیان صرف ٹیلیوفونک رابطے سے یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں (والدین) نے نور مقدم کو قتل کرنے یا طاہر ظہور (سی ای او تھیراپی ورکس) کو شواہد ضائع کرنے کی ہدایات دی ہوں۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’موبائل پیغامات یا موبائل کالز میں ہونے والی گفتگو کے بغیر یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی نے قتل کرنے میں اپنے بیٹے کی کوئی سہولت یا قتل، اغوا یا قید کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ‘
فیصلے کے مطابق ’کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ انہیں (والدین) کو یہ علم تھا کہ ان کا بیٹا نور مقدم کو قتل کرنے لگا ہے۔ سب سے پہلے یہ پراسیکیوشن کی ذمہ داری تھی کہ پہلے یہ ثابت کریں کہ والدین کو اپنے بیٹے کے ارادوں کے بارے علم تھا، اس کے بعد ملزمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نور مقدم کی زندگی بچانے کے لیے پولیس کو اطلاع دیتے۔‘
عدالت نے کہا کہ ’صرف کال ریکارڈ ڈیٹا پر عدالت یہ فرض نہیں کرسکتی کہ بیٹے کی جانب سے کیے گئے قتل میں والدین کسی طرح ملوث یا شراکت دار ہیں، اسی لیے پراسیکیوشن ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام ہوئی ہے، یہ عدالت صرف کال ریکارڈ ڈیٹا پر انہیں مجرم نہیں قرار دے سکتی۔‘
عدالت نے تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور کی بھی بریت کی وجہ صرف کال ریکارڈ ڈیٹا ہی قرار دی ہے۔ کال ریکارڈ ڈیٹا کی بنیاد پر ہی یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ طاہر ظہور کو قتل کا علم تھا اور نہ ہی وہ خود جائے وقوعہ پر گئے تھے۔‘
تھیراپی ورکرز کے دیگر ملازمین کے بارے عدالت نے فیصلہ دیا کہ ‘جائے وقوعہ پر جانے والے تھیراپی ورکرز نے شواہد مٹانے کی کوشش نہیں کی اور کرائم سین آفیسر کے بیان کے مطابق جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو کرائم سین سے شواہد ضائع نہیں کیے گئے تھے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ’سی سی ٹی فوٹیج کے مطابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو رسیوں اور کپڑوں سے باندھا ہوا تھا اور تھیراپی ورکس کے ملازمین وہاں موجود تھے اور انہوں نے اپنے ساتھی کو ظاہر جعفر سے بچانے کی کوشش کی، تاہم اس وقت تک نور مقدم کا قتل ہوچکا تھا۔‘
عدالت نے کہا کہ ’تھیراپی ورکرز کا ساتھی زخمی ہوگیا تھا اور انہیں اس کی جان بچانی پڑی اور اس صدمے کی حالت میں وہ پولیس کو اطلاع نہیں دے پائے۔ تاہم تھیراپی کی ٹیم نے جائے وقوعہ سے کسی قسم کے شواہد کو نہیں مٹایا اس لیے یہ پراسیکیوشن تھیراپی ٹیم کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘