Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روسی فوج کی کیئف کی جانب پیش قدمی، مذاکرات کی مشروط پیشکش بھی

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ ماسکو کیئف سے بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن اسی صورت میں کہ یوکرینی فوج ہتھیار ڈال دے۔
برطانوی خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے جمعے کو یہ بھی کہا کہ ماسکو نہیں چاہتا کہ ’نیو نازی یوکرین‘ پر حکومت کریں۔
روس کا یوکرین پر تین اطراف سے کیا جانے والا حملہ کسی بھی یورپی ملک پر دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے۔
 
قبل ازیں یوکرین کے صدر ولادیمیر زولینسکی کا کہنا تھا کہ روسی فورسز شہری علاقوں پر حملہ کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کی ’بہادری‘ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ کیئف ان کی حفاظت کے لیے ’ہر ممکن‘ کوشش کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ماسکو کی فورسز دارالحکومت کیئف پہنچ چکی ہیں اور شہر میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، جنہیں حکومت ’خوفناک راکٹ حملے‘ قرار دے رہی ہے۔
ولادیمیر زویلینسکی نے ایک ویڈیو میں کہا کہ ’وہ (روسی فورسز) کہہ رہے ہیں کہ شہری عمارات ان کا ہدف نہیں۔ لیکن یہ ان کا ایک اور جھوٹ ہے۔ اصل میں وہ ان علاقوں کا فرق نہیں کر رہے جہاں وہ آپریشن کر رہے ہیں۔‘

روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ماسکو نہیں چاہتا کہ ’نیو نازی یوکرین‘ پر حکومت کریں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’یوکرینی فضائی نظام ہمارا دفاع کر رہے ہیں۔ یوکرینی افراد بہادری دکھا رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے تمام فورسز ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘
یوکرینی رہنما نے اپنے لوگوں کو ’یکجہتی‘ کا اظہار کرنے کا کہا اور بزرگوں کو پناہ تلاش کرنے میں مدد کرنے کی ہدایت کی۔
ولودویمیر زولینسکی کا کہنا تھا کہ روس کو جنگ ختم کرنے کے لیے کیئف سے بات کرنی ہوگی۔
’روس کو آج نہیں تو کل ہم سے بات چیت کرنی ہوگی۔ انہیں جنگ ختم کرکے حملے روکنے کی بات کرنی ہوگی۔ جتنی جلدی مذاکرات شروع ہوں گے، اتنے روس کے لیے نقصانات کم ہوں گے۔‘
یوکرین کے صدر نے کیئف میں رہنے کا عزم کیا ہے۔
اے ایف پی کی خبر کے مطابق جمعے کو یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے شمالی ضلعے میں دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس فائرنگ کے دوران لوگ محفوظ مقامات کی جانب بھاگتے دکھائی دیے جبکہ اوبلونسکی کے علاقے میں بھی چھوٹے ہتھاروں کی فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ شہر کے مرکز سے کافی فاصلے سے نسبتاً بڑے دھماکے کی آواز بھی سنی گئی۔
دھماکوں اور فائرنگ کے دوران تقریباً ایک لاکھ افراد یوکرین چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اے ایف پی کے ایک صحافی کے مطابق یوکرین کے دارالحکومت کیئف کی وسط میں جمعے کی صبح  دو زوردار دھماکے سنائی دیے ہیں۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دومترو کولیبا نے جمعے کی صبح کیئف پر ہونے والے ’خوفناک راکٹ حملوں‘ کی مذمت کی ہے۔
ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے ہمارے دارالحکومت پر ایسا 1941 میں ہوا تھا، جب نازی جرمنی نے حملہ کیا تھا۔‘
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلینسکی نے جمعے کو خبردار کیا کہ روسی ’سبوتاژ گروپس‘ کیئف داخل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے شہریوں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ جمعرات کو روس نے اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا۔

تقریباً ایک لاکھ افراد یوکرین چھوڑ چکے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

کریملن کی جانب سے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملے پر یوکرینی صدر نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو روس سے لڑنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایک اور ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ کون ہمارے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہے؟ مجھے کوئی نظر نہیں آتا۔‘
جمعرات کو روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے حملے کے اعلان کے بعد یوکرین کے شہروں میں شیلنگ ہوتی رہی جس کے بعد شہریوں کو ٹرین کے سٹیشنوں میں پناہ لینی پڑی۔
روسی پیراٹروپرز نے بیلاروس سے ہیلی کاپٹرز اور جنگی طیاروں کے ساتھ داخل ہوتے ہوئے کیئف کے شمال مغربی مضافات میں گوسٹومیل ایئرفیلڈ کا کنٹرول حاصل کیا۔

شیئر: