Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین میں پھنسے ہزاروں عرب طلبا گھر واپسی کے لیے بے چین

یوکرین میں ساڑھے پانچ ہزارعراقی قیام پذیر ہیں،جن میں 450 سٹوڈنٹس ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
یوکرین میں تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں عرب  نوجوان روس کے حملے کے بعد کی صورتحال جو ان کے لیے ڈروانے خواب کی طرح ہے سے نکلنے اور اپنے گھر واپسی کے لیے اپیل کر رہے ہیں۔
اے ایف پی نیوز کے مطابق دس ہزار سے زائد عرب طلباء یوکرین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اکثر ایسے افراد بھی ان میں شامل ہیں جو اپنے ممالک میں حالات کی کشیدیگی کے باعث یوکرین میں قیام پذیر ہیں۔
آبائی وطن واپسی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہنے پر بہت سے افراد نے اپنی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے مختلف مقامات پر موجود  تہ خانوں یا میٹرو سٹیشنوں پر پناہ لے رکھی ہے۔
واضح رہے کہ کئی عرب افراد نے محفوظ  پناہ گاہوں کی تلاش میں یوکرین کے ہمسایہ ممالک پولینڈ یا رومانیہ میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی ہے۔
ایک عراقی طالب علم علی محمد نے مغربی شہر چرنیوٹسی سے ٹیلی فون پر  بتایا ہے کہ ہم نے جنگ سے بچنے کے لیے  اپنا ملک چھوڑ دیا تھا لیکن اب یوکرین میں بھی ویسے ہی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
 عراقی طالب علم کا کہنا ہے کہ روس نے جب سے یوکرین پر حملہ کیا ہے وہ دارالحکومت کیف میں عراقی سفارت خانے کو  یومیہ ایک درجن فون کر چکے ہیں لیکن کسی نے  رابطہ ہی نہیں ہو رہا۔
علی محمد نے مزید کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ہمیں یہاں سے بچایا جائے اور ہم اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔

یوکرین پر حملے سے قبل یہاں 1300 لبنانی طلبا زیر تعلیم تھے۔ فوٹو اے ایف پی

ادھر عراقی حکومت کے اہلکار کے مطابق یوکرین میں ساڑھے پانچ ہزار عراقی قیام پذیر ہیں جن میں طلبا کی تعداد 450 کے قریب ہے۔
شام سے تعلق رکھنے والے24 سالہ رائد المودرس نے بذریعہ ٹیلی فون بتایا ہے کہ میں اپنے ملک میں جنگی صورتحال کے پیش نظر ایک نئے عزم کے ساتھ  صرف چھ ماہ قبل یوکرین کے شہر اوڈیسہ آیا تھا۔
رائد نے بتایا ہے کہ اس وقت میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا ہوں اور زندگی بچانے کے لیے اپنا زیادہ وقت ایک تہ خانے میں پناہ لینے پر مجبور ہوں۔
اس وقت یوکرین میں عرب ممالک میں سے مراکش کے  سب سے زیادہ طلباء  موجود ہیں جو مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی تعداد  آٹھ ہزار کے قریب ہے اس کے بعد مصر کے طلبہ کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔

تیونس کا سفارت خانہ نہ ہونے کے سبب شہریوں سے رابطہ مشکل ہے۔ فوٹو ٹوئٹر

یوکرین میں موجود مراکش کی ایک طالبہ مجدہ نے ٹویٹ کیا ہے کہ ہم موجودہ   صورتحال کا کوئی حل چاہتے ہیں، حکام سے ہماری گذارش ہے کہ ہمیں محفوظ طریقے سے گھر بھجوانے کی حکمت عملی پر غور کریں۔
 طالبہ نے اپنے ملک کے حکام کو کہا ہے کہ یہ تیسری عالمی جنگ ہے اور آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ۔
ورلڈ بینک کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں  مالیاتی بحران کے شکار ملک  لبنان کے بھی سیکڑوں طلباء یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔
لبنان کے 25 سالہ سمیر نے کہا ہے کہ بیروت سےحکام نے ہمارے انخلاء کے لیے تاحال کوئی واضح حکمت عملی جاری نہیں کی۔
یوکرین کے سرحد ی شہر خارکیف سے سمیر نے بتایا ہے کہ میں نے مالی بحران کی وجہ سے  اپنا ملک لبنان چھوڑ ا اور اپنی کار بیچ  کر چھوٹی سی بچت سے یوکرین میں پڑھائی شروع کر دی۔

آپ کو بے بس محسوس کر رہےہیں اور زندگی بچانے کے لیے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر

دارالحکومت کیف میں ایک ریسٹورنٹ کے مالک علی کریم نے بتایا ہے کہ وہ  یہاں میٹرو سٹیشن پر پناہ لینے والی لبنانی خواتین کو کھانا فراہم کر کے ان کی مدد کر رہے ہیں۔
ریسٹورنٹ کے مالک علی کریم نے بتایا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے سے قبل یہاں 1300 لبنانی طلبا زیر تعلیم تھےجب کہ ان میں سے نصف طلبا مختلف ذرائع کی مدد سے یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں باقی یہاں موجود ہیں۔
بیروت کی جانب سےطلبا  کے ساتھ رابطے کے لیے ہاٹ لائن  قائم کی گئی ہے جو وقفے وقفے سے ہی کام کرتی ہے۔
ادھر لبنانی وزیر خارجہ عبداللہ بو حبیب نے بتایا ہے کہ یوکرین میں پھنسے اپنے شہریوں کی مدد کے لیےمختلف منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔
یوکرین میں تیونس کا سفارت خانہ نہ ہونے کے باعث وہاں سے اپنے1700شہریوں سے رابطہ کرنا مشکل ہو رہا ہےاور امدادی انتظام کے لیے ریڈ کراس سے رابطے میں ہیں۔ وہاں موجود مایوس طلباء نے مدد کی درخواست کرتے ہوئے ویڈیو فوٹیج آن لائن پوسٹ کی ہیں۔
 

شیئر: