Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گجرات کے چوہدری برادران پاکستان کی سیاست کا محور کیسے بنے؟

حکومت کے خلاف مشترکہ موقف کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ (فوٹو: پی ایم ایل این)
پاکستان کی سیاست میں اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہو پائیں گی یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ آج کل اپوزیشن جماعتیں دن رات سیاسی بساط پر متحرک نظر آرہی ہیں۔ 
لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی ان سرگرمیوں میں حکومتی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ جس کو عرف عام میں ق لیگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی طاقتوں کا مرکز و محور بنی ہوئی ہے۔ 
ق لیگ گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب کے چوہدریوں کی شناخت ہے۔ موجودہ سیاسی ہلچل میں بظاہر سیاسی رہنما چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کی غرض سے آ جا رہے ہیں لیکن خود ق لیگ کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر پریس ریلیز میں ان ملاقاتوں کے سیاسی پہلوؤں پر ہلکی روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بات ’باہمی دلچسپی کے امور‘ پر تبادلہ خیال پر ختم ہوتی ہے۔
حال ہی میں سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لاہور گلبرگ میں ظہورالہی پیلیس میں آکر ان ’نئے سیاسی‘ رابطوں کی داغ بیل ڈالی۔ 
زرداری اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ عدم اعتماد کا ’فارمولہ‘ ڈسکس کرکے ہی چوہدری برادران سے ملاقات کرنے آئے۔ بس پھر کیا تھا ظہور پیلیس نئے سیاسی گٹھ جوڑ کا مرکز دکھائی دینے لگا۔ 
شہباز شریف خود چل کر پرویز الہی سے دو دہائیوں کے بعد ان کے گھر پہنچے۔ تو مولانا فضل الرحمن بھی ایک الگ ملاقات کے لیے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی سے ملنے آ گئے۔ ایک اور حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بھی اسی دوران ایک ملاقات چوہدری برادران سے کی۔ 
اسی طرح جماعت اسلامی کے سراج الحق بھی ظہور پیلیس تشریف لائے۔ جب یہ ملاقاتیں عروج پر تھیں تو اس وقت وزیراعظم دورہ چین کے بعد دورہ روس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ 
وزیراعظم نے البتہ اپنی تقریروں میں اپوزیشن کی چوہدری برادران سے ملاقاتوں پر تنقید کی اور اسے اپوزیشن کی کمزوری قرار دیا۔ 

گزشتہ مہینے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے چوہدری برادران سے ملاقات کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن خود بھی وزیراعظم چوہدریوں سے ملاقات کرنے یکم مارچ کو ان کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی تھے۔ اس ملاقات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ہی اپنی اگلی سیاسی چالوں میں گجرات کے چوہدریوں کا کردار دیکھ رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ق لیگ کے پاس مرکز میں صرف پانچ جبکہ پنجاب میں دس سیٹیں ہیں۔ انہی نشستوں کے بل پر وفاق میں مونس الہی وزیر ہیں تو پنجاب میں پرویز الہی سپیکر اسمبلی ہیں۔ 

چوہدریوں کی مہمان نوازیوں کے چرچے 

کم نشستیں ہونے کے باوجود ملکی سیاست میں اپنے آپ کو محور رکھنا گجرات کے چوہدریوں کی اصل سیاست ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں کو چوہدری پرویز الہی اپنی ’روایتی مہمان نوازی‘ قرار دیتے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ہمارے گھر میں جو بھی آتا ہے ہم اس کا بھرپور خیرمقدم کرتے ہیں اور یہ ہمارے بزرگوں کی روایت ہے۔‘ 

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق چوہدری برادران کی سیاست نناوے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ (فائل فوٹو)

تو کیا واقعی یہ ملاقاتیں محض مہمان نوازی کے اشارے ہیں؟ مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے تاہم اردو نیوز کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’مہمان نوازی تو اپنی جگہ لیکن یہ ملاقاتیں خالصتا سیاسی نوعیت کی رہی ہیں۔ اور چوہدریوں نے کھل کر پنجاب کی وزارت اعلی مانگی ہے۔ کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو پنجاب میں بزدار حکومت کو بھی ہٹایا جائے گا، اور بقیہ مدت تک پنجاب کے وزیراعلی پرویز الہی ہوں گے۔ تاہم اس فرمائش کو نواز شریف نے قبول نہیں کیا اسی لیے اپوزیشن اور چوہدریوں کے مابین سیاسی ڈیڈ لاک کی سی صورت حال ہے۔ اس لیے اب چوہدریوں سے ہٹ کر دیگر آپشنز پر بھی غور ہو رہا ہے۔‘
معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دو الگ چیزیں ہیں ’اگر تو آپ وضع داری کی بات کرتے ہیں تو میرے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گجرات کے چوہدریوں نے میل ملاپ کی حد تک ہمیشہ وضع داری کی سیاست کی ہے۔ اور مہمان نوازی کی ہے۔ لیکن ان کی سیاست 1999 کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اور اس کا برملا اظہار بھی وہ کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ ان کی ایک بڑی طاقت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت جوڑ توڑ میں پہلے ان کی طرف دیکھتی ہے۔‘ 

شیئر: