Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پلاٹ کے قبضے سے محروم کیوں؟

نور حسن بروہی کے مطابق کئی سالوں سے سندھ میں کوئی سرکاری سستی ہاوسنگ سکیم نہیں آئی (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے شہر کراچی میں سرکاری رہائشی سکیموں کے متعارف نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پراپرٹی بلڈرز نے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی پریشان کرنا شروع کر دیا ہے. پراپرٹی کی قیمتوں میں من مانے اضافے کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا قبضہ بھی نہیں دیا جاتا جبکہ انتظامیہ بھی بلڈرز کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے. 
محمد عرفان بھٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سال 2006 میں انہوں نے ایک پلاٹ بک کرایا تھا جو 16 سال گزرنے کے بعد بھی ان کے نام نہیں ہو سکا۔ باقاعدگی سے قسطیں جمع کروانے کا صلہ یہ ملا کہ 5 لاکھ میں بک کرائے گئے پلاٹ کی جمع شدہ رقم کو بچانےکے لیے اسی پلاٹ کو 24 لاکھ روپے میں خریدنا پڑا۔
’مرتا کیا نہ کرتا! میں نے منت سماجت کر کے قسطیں جمع کروائیں اور اب 24 لاکھ روپے کے حساب سے پروگرام کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔‘
محمد عرفان بھٹی کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ سعودی عرب کے شہر دمام میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے سال 2006 میں صنوبر سٹی وی آئی پی بلاک میں پانچ لاکھ روپے کے عوض ایک پلاٹ خریدا تھا جس کی ادائیگی طے شدہ طریقے کار کے تحت قسطوں میں دینی تھی جو انہوں نے ادا کی لیکن ابھی تک انہیں پلاٹ کا قبضہ نہیں دیا گی اہے۔ اس سلسلے میں کئی اداروں سے رابطہ کیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا ہے۔
بیرون ممالک میں مقیم افراد کے لیے کام کرنے والی تنظیم اوورسیز فاؤنڈیشن کے مطابق سندھ میں زمینوں کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں، کئی معاملات عدالت میں ہیں جبکہ کئی کیسز کو پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کراچی میں پراپرٹی میں سرمایہ کاری ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے، تمام اداروں کی منظوری کے دعووں کے ساتھ متعارف کروائی جانے والی کئی سکیمیں سالوں گزرنے کے بعد بھی رہنے کے قابل نہیں ہوسکی ہیں۔
دن رات محنت کر کے پیسے جوڑنے والے بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پرائیورٹ پروجیکٹس میں خریدی گئی پراپرٹی کے لیے موثر منصوبہ بندی کی جائے۔ اور بلڈرز کو پابند کیا جائے کہ وہ طے شدہ رہائشی سہولیات بروقت فراہم کریں۔
اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن سندھ کے ریجنل ہیڈ نور حسن بروہی کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے سرکاری سطح پر نئے منصوبے آنے چاہیئں جس میں اوورسیز کے لیے سیکٹر مختص ہوں۔
’اوورسیز کی پراپرٹی پر قبضہ سمیت دیگر معاملات کو حل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ مہران ٹاؤن سمیت دیگر کیسزعدالت میں ہیں۔ اوور سیز کی جانب سے شکایات درج کروائی جائیں تو ہم کارروائی کرتے ہیں۔‘
سمندر کنارے آباد شہر کراچی میں یہ بات بھی نمایاں ہے کہ بلڈرز کے ناکام پروجیکٹس اور قبضہ مافیا کی کارروائیاں روز رپورٹ ہوتی ہیں۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں اصل الاٹیز تمام دستاویزات کے باوجود اپنی ملکیت سے محروم ہیں۔ کہیں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے علاقے ویران ہیں تو کہیں قبضہ مافیا نے جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسے میں بیرون ملک رہنے والے بہتر اور بااعتماد بلڈرز کے پاس پراپرٹی بک کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن شہر میں بے شمار بلڈرز ایسے کام کر رہے ہیں جن کے اعلان کردہ پروجیکٹس اب تک صرف کاغذوں میں ہی ہیں۔ 

کورنگی مہران ٹاؤن میں اوور سیز کے لیے بنائی گئی سکیم کامیاب نہیں ہوسکی (فوٹو روئٹرز)

ڈائریکٹر لینڈ کراچی ترقیاتی ادارہ محمد واریال اندھار کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے شہریوں کے لیے سستی رہائشی سکیمز متعارف کروائی جاتی تھیں جو تقریباً دو دہائیوں سے بند ہیں۔ حکومت سندھ نے کراچی میں اوور سیز پاکستانیوں کے لیے تین سکیمیں متعارف کروائی تھیں جن میں کورنگی مہران ٹاؤن، کلفٹن اور گلستان جوہر کی سکیمیں قابل ذکر ہیں۔
یاد رہے کہ کورنگی مہران ٹاؤن میں اوور سیز کے لیے بنائی گئی سکیم کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ سکیم متعارف کروائی گئی تھی لیکن اس علاقے پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے اور اصل مالکان اداروں اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ 
کراچی ترقیاتی ادارے کے ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل ڈائریکر محمد پرویز کے مطابق اس وقت اوورسیز کے لیے ہاؤسنگ پلانگ میں کوئی سکیم نہیں لائی جارہی ہے۔ ایک پروجیکٹ سرجانی ٹاؤن میں آنا ہے اور وہ بھی عام شہریوں کے لیے ہے جس میں کوئی بھی شہری حصہ لے سکتا ہے۔ 
دوسری جانب پرائیویٹ پروجیکٹس کا معاملہ بلکل مختلف ہے۔ بلڈرز کی جانب سے روز کسی نہ کسی علاقے میں پروجیکٹ لانچ کیے جاتے ہیں لیکن اس کے مستقبل پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ پیسوں کی مکمل ادائیگی کے باوجود کئی کئی سال گزرنے کے بعد بھی شہری اپنے جائز حق سے محروم ہیں۔ 

شیئر: