شہریوں کا انخلا، یوکرین نے جنگ بندی کی روسی پیشکش مسترد کردی
شہریوں کا انخلا، یوکرین نے جنگ بندی کی روسی پیشکش مسترد کردی
پیر 7 مارچ 2022 6:27
یوکرین نے روس کی جانب سے چند شہروں سے لوگوں کو بیلاروس اور روس جانے دینے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔
روس نے چند گھنٹے قبل یوکرین کے چند شہروں سے لوگوں کے انخلا کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور کوریڈور کی تفصیلات جاری کی تھیں۔ جن کے راستے لوگ بیلاروس اور روس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق یوکرین کی نائب وزیراعظم ارینا ویریشچکوف کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک قابل قبول آپشن نہیں ہے۔
قبل ازیں روسی وزارت دفاع کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ شہریوں کے انخلا کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں کی خصوصی درخواست پر کیا گیا ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ماریوپول اور سمی سے کوریڈور کھولے جا رہے ہیں۔
روس کی نیوز ایجنسی آر آئی اے کی جانب سے شائع کیے جانے والے نقشے میں دکھایا گیا کہ کیئف سے بیلاروس جانے والا کوریڈور کھولا جائے گا جبکہ خرکیف سے جانے والوں کو روس کی طرف جانے والا کوریڈور مہیا ہو گا۔
اسی طرح ماریوپول اور سمی سے شہری ملک کے دوسرے شہروں اور روس کی طرف جا سکیں گے۔
وزرات کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ جو لوگ کیئف چھوڑنا چاہتے ہیں وہ بھی روس کی طرف جا سکیں گے۔
’انخلا کے عمل کو ڈرونز کی مدد سے مانیٹر کیا جائے گا۔‘
قبل ازیں اتوار اور پیر کی درمیان رات اور صبح کے وقت بھی لڑائی جاری رہی، جس کے باعث یوکرین کے شہر ماریوپول میں 20 ہزار شہری محصور ہو گئے تھے اور روسی صدر نے کہا تھا کہ کیئف کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی۔
دوسری جانب یوکرین اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روسی حملہ روکنے کے لیے ہنگامی فیصلہ جاری کرے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ساحلی شہر ماریوپول کے زیادہ تر لوگ زیرزمین مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں جبکہ شہر میں بمباری کے باعث پانی اور بجلی بھی منقطع ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ماسکو کی جانب سے 24 فروری کو کیے جانے والے حملے کے بعد سے 364 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 20 سے زائد بچے بھی شامل ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں بمباری کے باعث ہوئی ہیں۔
’روس کا دعویٰ غلط تشریح پر مبنی ہے‘
روئٹرز کے مطابق یوکرین کی جانب سے پیر کو عدالت کو بتایا جائے گا کہ ’نسل کشی کے حوالے سے پوتن کا دعویٰ غلط تشریح پر مبنی ہے۔‘
خیال رہے روسی صدر پوتن نے کہا تھا کہ ’مشرقی یوکرین میں غنڈہ گری اور نسل کشی کا نشانہ بننے والے لوگوں کے تحفظ کے لیے روس کی فوجی کارروائی ضروری تھی۔‘
اس کے جواب میں یوکرین نے اس دعوے کو ’غلط تشریح پر مبنی‘ قرار دیا ہے۔
اس کی جانب سے عالمی ادارہ انصاف میں کیس دائر کیا گیا ہے، دونوں ممالک نے 1948 میں نسل کشی سے بچاؤ کے لیے ہونے والے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد دستخط کرنے والے ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنا ہے۔
اگرچہ عام طور پر عدالت کے فیصلے پر ممالک عمل کرتے ہیں تاہم عدالت اپنے فیصلوں پر براہ راست عملدرآمد کے وسائل نہیں رکھتی۔
علاوہ ازیں ہفتے بین الاقوامی ایسوسی ایشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے کہا گیا تھا کہ روس ’نسل کشی‘ کی اصطلاح کا غلط مطلب لے رہا ہے اور اس کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے اتوار کو کہا تھا کہ روس کے حملے کے بعد سے اب تک 15 لاکھ سے زائد لوگ یوکرین چھوڑ چکے ہیں۔
حکام اور اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق روس کی پیش قدمی کے ساتھ اس تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے ہائی کمشنر فلپو گرینڈی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ 10روز میں یوکرین سے 15 لاکھ افراد ہمسایہ ممالک کی طرف نکل گئے ہیں، جبکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں یہ پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 40 لاکھ افراد ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔