Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ کی وجہ سے 15لاکھ افراد یوکرین چھوڑ چکے ہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں پناہ گزینوں کا تیزرفتار بحران ہے۔‘ (فوٹو؛ اے ایف پی)
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ روس کے حملے بعد اب تک 15 لاکھ سے زیادہ افراد یوکرین  چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ اس نے اتوار کو دوپر تک انخلا کرنے والے 15 لاکھ 34 ہزار سے زائد افراد کا ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر ریکارڈ کیا۔ سنیچر سے اتوار تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد نے ملک چھوڑا۔
حکام اور اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق روس کی پیش قدمی کے ساتھ اس تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے ہائی کمشنر فلپو گرینڈی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ 10روز میں یوکرین سے 15 لاکھ افراد ہمسایہ ممالک کی طرف نکل گئے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں یہ پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 40 لاکھ افراد ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب یوکرین کے ساحلی شہر ماریوپول سے لوگوں کے انخلا کا عمل ’روسی حملوں کے تسلسل‘ کی وجہ سے اتوار کو ممکن نہیں بنایا جا سکا۔
امریکی خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے یوکرین کے ایک عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکام نے یوکرین کے دارالحکومت کے قریبی راستوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی سہولت کے لیے روس کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی ہے۔
ماریوپول کے شہریوں کو اتوار کو صبح 10 بجے سے رات 9 بجے سیزفائر کے دوران شہر سے نکلنا تھا لیکن یوکرین کی وزارت داخلہ کے مشیر اینٹن گیریشچینکو کا کہنا ہے کہ طے شدہ انخلاء کی کارروائیاں روسی فوجیوں کے حملے کی وجہ سے ممکن نہیں بنائی جا سکیں۔
انہوں نے ٹیلی گرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بیمار ذہن روسی فیصلہ سازوں نہیں سمجھتے کہ وہ کب اور کس پر فائرنگ کر رہے ہیں، اس لیے یوکرین سے نکلنے والوں کے لیے کوئی بھی محفوظ راستہ دستیاب نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ روس کا یوکرین پر حملہ گیارہویں روز میں داخل ہو چکا ہے اور اس دوران لگ بھگ 15 لاکھ افراد ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کے سربراہ نے اتوار کو کہا ہے کہ ’یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں پناہ گزینوں کا تیزرفتار بحران ہے۔‘
دوسری جانب فرانس کے صدر اور پوپ فرانسس نے بھی روس پر زور دیا ہے کہ وہ اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔
’اندھا دھند بمباری دنیا کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہے‘
علاوہ ازیں یوکرین کی نیشنل سکیورٹی سروس نے بتایا ہے کہ روسی افواج نے خارکیف شہر میں قائم ایک فزکس انسٹی ٹیوٹ جس میں ایٹمی مواد اور ری ایکٹر تھا، کو راکٹوں سے نشانہ بنایا ہے۔ روسی فوجی پہلے ہی زیپورزیزیا پلانٹ اور چیرنوبل کو کنٹرول سنبھال چکی ہیں جس سے بدترین نیوکلیر بحران جنم لے سکتا ہے۔
یوکرین کی سکیورٹی سروس نے کہا ہے کہ خار کیف میں ایٹمی تنصیبات پر حملہ ایک ’بڑے ماحولیاتی بحران‘ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ روسی میزائلوں کا کوئی خاص ہدف نہیں۔ ان کی اندھا دھند گولہ باری دنیا کو راکھ کے ڈھیر میں بدل سکتی ہے۔
دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اتوار ہی کو یوکرین کی فضائی حدود کو ’نوفلائی زون‘ قرار دینے کا اپنا مطالبہ دہرایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’دنیا ہماری فضاؤں کو پروازوں کے لیے بند کرنے کی کافی طاقت رکھتی ہے۔‘

یوکرین کے صدر نے ٹیلی وژن پر آ کر عوام سے کہا تھا کہ’ ہمارے شہروں میں داخل ہونے والے دشمن کے خلاف گلیوں میں نکلیں اور لڑیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل کو یوکرین کے صدر نے ٹیلی وژن پر آ کر عوام سے کہا تھا کہ’ ہمارے شہروں میں داخل ہونے والے دشمن کے خلاف گلیوں میں نکلیں اور لڑیں۔ یہ لازم ہے کہ آپ باہر جائیں اور اس برائی کو اپنی سرزمین سے باہر دھکیل دیں۔‘
ماریوپول شہر کے میئر نے یوکرینین ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’شہر اس وقت بدترین محاصرے میں ہے۔ رہائشی علاقوں پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے۔ جہاز رہائشی عمارات پر گولے گرا رہے ہیں۔ روسی قابضین بھاری اسلحہ اور گریڈ ملٹی پل راکٹ لانچرز کا استعمال کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو یوکرین کی ریاست کے وجود کی بقا کا سوال پیدا ہو جائے گا۔‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی اتوار کو یوکرین میں کام کرنے والے طبی عملے پر حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا یے کہ انہوں نے کم از کم چھ ایسے حملوں کی تصدیق کی ہے جن میں چھ ہیلتھ ورکرز ہلاک جبکہ 11 زخمی ہوئے ہیں۔
برطانوی فوجی حکام نے کہا ہے کہ روس یوکرین میں وہی حربے آزما رہا ہے جن کا استعمال چیچنیا اور شام میں کیا گیا۔
ان حملوں نے دوران ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد کا انداز لگانا مشکل ہے تاہم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اب تک 351 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے لیکن یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے اتوار کی صبح یوکرین کے صدر دلادیمیر زیلنسکی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور روس پر لگائی جانے والی پابندیوں اور یوکرین کی مدد کے عمل کو تیز کرنے سے متعلق بات چیت کی۔
روس سے تیل اور گیس کی برآمدات پر پابندی لگانے پر بات چیت کر رہے ہیں: امریکہ
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی روس سے تیل اور گیس پر پابندی لگانے پر ’موثر بات چیت‘ کر رہے ہیں۔
اے پی کے مطابق اتوار کو بلنکن نے سی این این کو بتایا کہ صدر بائیڈن کی جانب سے اس ایشو پر نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس ایک دن پہلے ہوا۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہم اپنے یورپی پارٹنرز سے روس سے تیل کی برآمدات پر پابندی لگانے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے ابھی تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے پرکشش انرجی سیکٹر پر یوکرین پر حملے کے جواب میں پابندیاں نہیں لگائی ہیں کیونکہ اس کے منفی اثرات ان ممالک کی اپنی معیشت پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہم اپنے یورپی پارٹنرز سے روس سے تیل کی برآمدات پر پابندی لگانے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اور اس پر بھی بات چیت کر رہے ہیں کہ کس طرح ان پابندیوں کا اثر تیل کی عالمی مارکیٹ پر نہ پڑے۔‘
دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ وہ یوکرین کے اندر اور باہر انسانی امداد کے اپنے آپریشنز کو بڑھائیں گے جبکہ پیر کو یوکرین کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔
اُدھر اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی یوکرین جو دنیا کو گندم برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، لیکن اسے بھوک کے کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

شیئر: