Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی کپ میں مملکت کے رنگا رنگ روایتی ملبوسات کی نمائش

سعودی کپ کی بدولت سعودی عرب کی ثقافت اجاگر ہوئی ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی کپ بھلے دنیا کی سب سے مہنگی گھُڑ دوڑ نہ ہو تاہم مملکت کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم کے طور پر ضرور سامنے آیا ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق 30 ملین ڈالر کے منصوبے کا مقصد سعودی عرب کی تاریخ کو سپاٹ لائٹ میں لانا ہے۔
 سعودی کپ کے شعبہ فیشن کے مہتمم اور ایگزیکٹیو آفیسر حاتم العقیل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سعودی کپ سعودی عرب کے ورثے کے لیے ایک زبردست پلیٹ فارم بن گیا ہے۔‘
شہزادی نورا بنت فیصل اور شہزادہ بندر بن خالد الفیصل نے گھڑ سواری کی دنیا میں سعودی ثقافت کو عالمی سطح پر فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
العقیل کا مزید کہنا تھا کہ سعودی کپ کا مقصد یہ ہے کہ گھڑ سواروں کو عرب اور سعودی ورثے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔
سعودی کپ کا اختمام پیر کو فائنل ریس پر ہوا، جس میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی شرکت کی اور مقابلہ جینے والے کو انعام اور گولڈ کپ سے نوازا۔

تقریب میں غیر ملکی ڈیزائنرز نے بھی شرکت اور عرب ثقافت کو سراہا (فوٹو: عرب نیوز)

سوشل میڈیا کی ممتاز شخصیت تمراہ الگبانی بھی دوسرے روز کے مقابلے دیکھنے کے لیے پہنچی تھیں، جہاں انہوں نے مشرقی حجاز ریجن کی روایات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ مستند ڈیزائنز کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہے، وہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے اس موقع پر سیدۃ الحجاب کا ایک روایتی لباس پہن رکھا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی کپ کے اس ایونٹ نے روایتی لباس کے لیے فیشن کے دروازے کھول دیے ہیں، اس سے ہم کو یہ موقع بھی ملا ہے کہ ہم گزرے ہوئے وقت میں جائیں اور اپنی ثقافت کے لیے محبہت کا اظہار کریں۔‘
سعودی کپ میں شرکت کرنے والے بین الاقوامی ڈیزائنرز بھی ایونٹ سے بہت محظوظ ہوئے، ان کے مطابق ’سعودی ثقافت اور ورثے کو پیش کرنے کا انداز متاثر کن ہے۔‘

تقریب میں شریک ہونے والے غیر ملکی ڈیزائنرز نے سعودی عرب کے روایتی لباس پہنے (فوٹو: عرب نیوز)

امریکہ سے تعلق رکھنے والے ڈٰیزائنر پربل گورنگ نے عرب نیوز کو بتایا کہ کپڑوں پر رنگوں کا امتزاج دیکھ کر اچھا لگا جو سعودی عرب میں لوگ پہنتے ہیں۔
’مجھے معلوم تھا کہ سعودی عرب ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے، جس میں بہت سا آرٹ ورک بھی شامل ہے، تاہم ان چیزوں کو خود دیکھا تو کافی اچھا اور حیرت انگیز لگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مملکت میں فیشن انڈسٹری نے گریس اور گلیمر کو فروغ دیا۔
’مجھے یہاں سب سے زیادہ خواتین نے متاثر کیا، یہ ایسی شاندار خواتین ہیں، جن میں پہلے میں کبھی نہیں ملا، ان کا بات کا انداز اور طور اطوار انتہائی شاندار ہیں۔

تمراہ الگبانی کا کہنا تھا کہ ایونٹ نے روایتی لباس کے لیے فیشن کے دروازے کھول دیے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

گورنگ کا مزید کہنا تھا کہ ’میں زیادہ تر اپنے کام پر اور رنگوں پر نظر رکھنے والا انسان ہوں، میں جب سے یہاں پہنچا ہوں میرا موبائل فون رنگ برنگی تصویروں سے بھر گیا ہے۔‘
اسی طرح ایونٹ میں شریک ہونے والے دیگر سٹارز میں فرانسیسی فلم ساز اور ماڈل فریدہ خیلفہ نے بھی شرکت کی جبکہ اطالوی ماڈل عفیف نیفن بھی شریک ہوئیں انہوں نے سعودی عرب کے علاقائی لباس پہنے۔

شیئر: