اللہ کے رسولنے سیدہ خدیجہ ؓ کی قربانیوں کا صلہ اس طرح دیا کہ آپنے ان کی زندگی میں اور کوئی شادی نہیں کی
عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض
مصر کے مشہور مفکر اور شاعر احمد شوقی کا بڑا مشہور شعر ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ قومیں اچھے اخلاق کے باعث ہی زندہ رہتی ہیںمگر جب عمدہ اخلاق ان سے رخصت ہو جاتے ہیں توقومیں مٹ جایا کرتی ہیں۔ اسی طرح عربی کا معروف مقولہ ہے:( الأخْلَاقُ ہِيَ عُنْوَانُ الشُّعُوبِ) ’’ یعنی قومیں اپنے اخلاق ہی سے پہچانی جاتی ہیں۔‘‘ عربوں میں مہلب نام کی ایک بڑی شخصیت پیدا ہوئی ہے۔ ان کا بھی اخلاق کے حوالے سے بڑا عمدہ تصور ہے۔ وہ کہتے ہیں: شریف آدمی کا مختصر ترین اخلاق یہ ہے کہ وہ اپنا راز کسی پر ظاہر نہ کرے اور اعلیٰ ترین اخلاق یہ ہے کہ جو راز اسے بتایاجائے ،وہ اس کی حفاظت کرے۔عربوں میں اخلاق کی اعلیٰ قدریں پائی جاتی تھیں۔ان میں حلم اور بردباری سب سے زیادہ تھی۔
یہ لوگ وفا کے پکے تھے۔ عربوں میں احنف بن قیس بردباری اور تحمل میں معروف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وفات کے 40سال بعد تک اس کی قوم بنو تمیم اپنے سردار کی ان خوبیوں سے متصف رہی۔ نعمان بن منذر حیرہ (عراق) کا حاکم تھا۔ اس نے 582سے 609 ء تک بڑے شان و شوکت سے حکومت کی ہے۔ بادشاہوں کی عادت ہے کہ وہ شکار کے لیے بڑے طمطراق سے نکلتے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ شکار کے لیے نکلا، اسے ایک جنگلی گدھا نظر آیا اس نے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے لشکر سے خاصا دور چلا گیا۔ اس دوران موسم تبدیل ہو گیا بادل جھوم کر آئے بارش شروع ہو گئی۔ بجلی بھی بار بار چمک رہی تہی۔ شام ہونے کو آ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے سپاہی جلد ہی اس کو تلاش کر لیں گے مگر وہ تو ان سے کوسوں دور آگے نکل چکا تھا۔ اس نے پناہ گاہ کی تلاش شروع کر دی۔ اسے ایک چھوٹا سا گھراور اس کے ساتھ خیمہ نظر آیا۔ قریب پہنچا تو اس نے زور سے آواز دی کہ کیا کوئی ہے؟ اندر سے بنو طے کا ایک شخص باہر نکلا، یہ اپنی بیوی کے ساتھ اس گھر میں رہتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار کھڑا مدد کا طلب گار ہے۔
اس کے کپڑے بارش میں بھیگ چکے ہیں، شکل و صورت سے وہ بڑا معزز آدمی لگ رہا تھا۔ گھڑ سوار نے کہا :کیا آج رات رہنے اور بارش سے بچاؤ کے لیے مجھے جگہ مل سکتی ہے ؟بنو طے کے اس آدمی کا نام حنظلہ تھا۔ اس نے اس اجنبی شخص کو خوش آمدید کہا، گھوڑے سے اترنے میں مدد دی۔ گھر کے اندر لے آیا۔ مہمان کے گیلے کپڑے اتارنے میں مدد کی، خشک کپڑے پہنائے اور دوسرے کمرے میں بیوی کے پاس چلا گیا۔ بیوی سے کہا کہ کوئی بڑا آدمی لگتا ہے۔ اس کی خوب عزت و تکریم کرنی چاہیے۔ گھر میں تھوڑے سے ’’جو‘‘ موجود تھے جو حنظلہ کی بیوی نے کسی خاص وقت کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ گھر میں دودھ دینے والی ایک ہی بکری تھی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ بکری کو ذبح کر دیا جائے، ادھر حنظلہ کی بیوی نے جلدی سے جو پیسے اور روٹی پکانے لگ گئی۔ حنظلہ نے بکری کا دودھ دوہا اور پھر اسے ذبح کر دیا۔
اس نے مہمان کو دودھ پلایا، اسی دوران اس کی بیوی نے روٹیاں اور گوشت پکا لیا۔ نعمان صبح سے بھوکا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے میزبان نے گھر کی اکلوتی بکری اس کے لیے ذبح کر دی ہے۔ اس نے خوب مزے سے کھانا تناول کیا اور رات بڑے پر سکون انداز میں گزاری۔ صبح ہوئی تو مکان کے باہر فوج کی نقل و حرکت کی آوازیں آ رہی تھیں۔ رات کو حنظلہ کی بیوی نے نعمان کے لباس کو آگ پر خشک کر دیا تھا۔ اسی دوران اس کے لشکر کے آدمی بھی پہنچ گئے تھے۔ نعمان نے اپنا لباس پہنا تو حنظلہ کو بھی اندازہ ہو گیا کہ یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں۔ نعمان جانے لگا تو اس نے کہا :بنو طے کے نوجوان! مانگو کیا مانگتے ہو؟ حیرہ کا بادشاہ نعمان بن منذر ہوں، کبھی ضرورت ہو تو ہمارے پاس بے دھڑک چلے آنا۔
نعمان بن منذر کے اخلاق، حسن تدبر اور وفاء کی شعراء نے تعریفیں کی ہیں۔ مشہور شعراء نابغہ، سیدنا حسان بن ثابت اور حاتم طائی جیسی شخصیات نے اس کی تعریف میں اشعار کہے اور اس کے اخلاق کی خوب تعریف کی۔ نعمان بن منذر ہجرت نبوی کے8 سال پہلے وفات پا جاتا ہے۔ نعمان کی خوبیاں اپنی جگہ مگر اس میں کئی ایک خامیاں بھی تھیں۔ اس نے سال میں ایک دن ایسا مقرر کر رکھا تھا کہ اس روز جو بھی اجنبی اسے ملتا اسے قتل کروا دیتا۔
لوگ اس روز اس سے دور رہتے۔ انہیں معلوم تھا کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اسی طرح اس نے سال میں ایک دن ایسا بھی مقرر کر رکھا تھا کہ اس روز اسے جو بھی ملتا اسے مال و دولت سے خوب نوازتا اور اس کی ہر قسم کی خواہش پوری کرتا۔ حنظلہ طائی نے نعمان کے ساتھ جو نیکی کی تھی وہ اسے بھولی نہیں تھی۔ دن بدلتے دیر نہیں لگتی حنظلہ کے جانور مر گئے۔ مالی حالت پتلی ہوتی چلی گئی۔ کھانے کے لیے کچھ نہ رہا ۔ ایک دن اس کی بیوی کہنے لگی: تمہیں یاد ہے کہ ہمارے گھر حیرہ کا بادشاہ آیا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس سے مالی مدد طلب کی جائے۔ حنظلہ اپنی بیوی کو ساتھ لیے ہوئے جب حیرہ کے محلات کے پاس پہنچا تو نعمان بن منذر محل کے باہر کھڑا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب وہ کسی بھی اجنبی کو دیکھ کر اسے قتل کروا دیتا تھا۔ حنظلہ کو اس دن کے بارے میں معلوم نہ تھا مگر تقدیر کو کون ٹال سکتا ہے۔ حنظلہ جب محل کے قریب پہنچا تو نعمان نے اسے پہچان لیا۔ کہنے لگا: تم وہی ہو جس کے پاس میں نے رات گزاری تھی۔ حنظلہ کہنے لگا : ہاںمیں وہی ہوں۔ نعمان نے کہا: تم آج کیوں آئے ہو، تمہیں شایدمعلوم نہیں کہ آج کے دن جو بھی میرے پاس آتا ہے، میں اسے قتل کروا دیتا ہوں۔
مجھے تمہارے ساتھ خوب ہمدردی ہے مگر میں اپنے اصولوں کو پورا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ طائی کہنے لگا: مجھے کیا معلوم تھا کہ آج کا دن بڑا منحوس دن ہے۔ نعمان کہنے لگا : دیکھو! تمہاری بات درست ہے مگر میرا فیصلہ اٹل ہے، میں نے تمہیں اب قتل تو کرنا ہی ہے۔کوئی خواہش ہو تو بتاؤ میں اسے پورا کروں گا۔ طائی کہنے لگا: جب میں نے قتل ہو ہی جانا ہے تو پھر مجھے مال و دولت سے کیا غرض؟ ہاں ایسا کرو کہ تم مجھے جو کچھ دینا چاہتے ہو وہ دے دو۔ ساتھ ہی سال بھر کی مہلت دو تاکہ میں اپنے اہل و عیال تک اس دولت کو پہنچا سکوں اور ساتھ ہی چند روز سکھ اور آرام کی زندگی گزار سکوں۔ نعمان کہنے لگا: تمہاری بات مجھے منظور ہے مگر اس کے لیے تمہیں کسی ضمانتی کا بندوبست کرنا ہو گا کہ اگر تم واپس نہ آئے تو تمہاری جگہ اسے قتل کر سکوں، حنظلہ طائی نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ بادشاہ کے مصاحبین میں اسے ایک معقول شخص نظر آیا، اس سے کہنے لگا: کیا تم میری ضمانت دو گے؟ اس نے معذرت کر لی۔ اسی دوران قبیلہ بنو کلب کا قراد بن اجدع آگے بڑھا اور نعمان سے کہنے لگا: بادشاہ سلامت! میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں۔
میں اس کا کفیل ہوں، اگر یہ سال بھر میں واپس نہ آیا تو بے شک مجھے قتل کر دیجیے گا۔قرادکاشمار دور جاہلیت کے قادر الکلام مشہور عرب شعراء میں بھی ہوتا ہے۔ قارئین کرام! بنو کلب عرب کا بڑا مشہور قبیلہ ہے ،یہ لوگ بڑے جنگجو اور بہادر تھے۔ ان کا علاقہ سعودی عرب کے شمال میں دومۃ الجندل کے قرب و جوار میں بنتا ہے۔ اللہ کے رسول کے آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہ کا تعلق بھی بنو کلب سے تھا۔ نعمان نے قراد کی ضمانت قبول کر لی۔
حیرہ کے بادشاہ نے ایک رات کی خدمت کا بدلہ 5 سو اونٹوں کی صورت میں دیا۔ حنظلہ نے اپنی بیوی اور5 سو اونٹوں کو ہمراہ لیا اور اپنے خاندان کی طرف چل دیا۔وقت گزرتے پتا بھی نہ چلا کہ سال پورا ہونے کو آگیا مگر طائی نوجوان واپس نہ آیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کے ضامن کو پکڑ کر لایا جائے۔ چنانچہ قراد بن اجدع کو گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ بادشاہ نے اسے کہا : دیکھو! سال پورا ہونے میں ایک دو دن باقی رہ گئے ہیں، اگر وہ طائی واپس نہ آیا تو قتل ہونے کی تیاری کر لو۔ قراد کہنے لگا: بادشاہ سلامت !آپ دو دن گزرنے دیں، اگر واقعی وہ طائی نہ آیا تو مجھے قتل کر دیجیے گا۔ ایک دن باقی رہ گیامگر طائی نہ آیا۔ آخری دن کا سورج غروب ہونے والا تھا۔ بادشاہ کے حکم پر اس کلبی کے ہاتھوں کو باندھ دیا گیا۔ لوگ اس کی طرف رحم بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ انہیں دور سے گرد اڑتی نظر آئی۔ لوگوں کی نظریں اس آنے والے شخص کی طرف مبذول ہو گئیں۔ گرد و غبار کم ہوا تو دیکھا کہ حنظلہ طائی ان کی آنکھوں کے سامنے کھڑا ہے۔
بلاشبہ اس شخص نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔ وفا کی اعلیٰ مثال قائم کر دی تھی۔ اس کی آمد نے قراد کو بھی موت سے نجات دلا دی۔ تمام لوگ اس کے وعدہ پورا کرنے اور وفاداری کا مظاہرہ کرنے پر حیران تھے۔ خود نعمان بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ نعمان نے حنظلہ طائی سے پوچھا : تمہیں معلوم تھا کہ تمہیں آتے ہی قتل کر دیا جائے گا مگر اس کے باوجود تم آ گئے؟ طائی نے جواب دیا: جی ہاں مجھے اچھی طرح معلوم تھا مگر وعدے کی پاسداری اور وفا کے تقاضے یہی تھے جو مجھے پورے کرنا تھے۔ وعدہ کرنے کے باوجود میں نہ آتا یہ کیسے ممکن تھا؟ نعمان نے اپنے سر کو جھکا دیا ،تھوڑا سا غور کیا کہ دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی موجود ہیں جو وفاء کی شاندار مثال قائم کر دیتے ہیں۔ ہجوم کی نظریں نعمان پر تھیں، وہ منتظر تھے کہ بادشاہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ نعمان نے کہا : جاؤ حنظلہ! میں نے تمہاری وفا سے متاثر ہو کر تمہیں معاف کر دیا ہے ۔
اس کے ساتھ ہی اس نے قتل کرنے والی اپنی بری عادت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ قارئین کرام! وفا کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ اللہ کے رسولاس کائنات میں سب سے زیادہ وفا کرنے والے تھے۔ اللہ کے رسولنے سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ سے مکہ مکرمہ میں شادی کی۔ اس وقت آپکی عمر مبارک 25 سال تھی جبکہ سیدہ کی عمر 40 سال تھی۔ اللہ کے رسولپر سب سے پہلے ایمان لانے والی یہی عظیم خاتون تھیں۔ غار حراء میں وحی نازل ہوئی تو اللہ کے رسولگھر تشریف لائے۔ وحی کا نازل ہونا غیر معمولی واقعہ تھا۔ گھبراہٹ فطرتی امر تھا مگر سیدہ نے جن الفاظ سے آپکو تسلی دی، وہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپکی صفات بیان کیں اور کہا: آپ جیسی عمدہ صفات رکھنے والے کو اللہ ہمیشہ عزت عطا فرماتا ہے۔ اللہ کے رسولنے سیدہ خدیجہ ؓ کی مالی اور جانی قربانیوں کا صلہ اس طرح دیا کہ آپنے ان کی زندگی میں اور کوئی شادی نہیں کی۔ سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی آپ انہیں کبھی نہیں بھولے۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، خدیجہ نے میری تصدیق کی۔ میری ساری اولاد بھی اسی سے ہے۔ سیدہ کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی ایک ایک بات یاد رکھتے تھے۔ وہ چلتی پھرتی کیسے تھیں؟ حتی کہ ان کا اجازت لینے کا انداز تک یاد رہا۔
ایک مرتبہ سیدہ خدیجہؓ کی بہن سیدہ ہالہ مدینہ شریف میں آپ کے گھر ملاقات کے لیے آتی ہیں۔ دروازے پر کھڑی اللہ کے رسولسے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہی ہیں۔ ان کا اجازت طلب کرنے کا اندازبالکل وہی تھا جو ان کی بہن سیدہ خدیجہؓ کا تھا۔ اللہ کے رسولکو بے اختیار خدیجہؓ یاد آ گئیں۔ ان کا اجازت لینے کا انداز بالکل ہالہ جیسا تھا۔ ہالہ، سیدہ کی سگی بہن تھیں ،اس لیے آپنے ارشاد فرمایا:اللہ کرے یہ ہالہ ہی ہو۔آپ نے سیدہ خدیجہؓ سے وفا کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کی بہن کی خوب عزت وتکریم فرمائی اور ان کی عمدہ مہمان نوازی کی۔ آئیے ایک اور منظر دیکھتے ہیں: اللہ کے رسول مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے جارہے تھے۔ آپ کے ہمراہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، ان کے غلام عامر بن فہیرہؓ اور اس قافلے کے گائیڈ عبداللہ بن اریقط تھے۔ یہ قافلہ جب بنو مدلج کے علاقے قدید سے گزررہا تھا تو اسے بنو مد لج کے بدو سردار سراقہ بن مالک نے روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔لمبے قد کا یہ بدو بہت بڑا شہسوار تھا۔ اسے قریش کے اعلان کی خبر مل چکی تھی کہ جو شخص (معاذ اللہ) رسول اللہ کو زندہ یا مردہ حالت میں پکڑ کر لائے گا، اسے سو اونٹوں کا انعام ملے گا۔ سراقہ انعام کے لالچ میں پیچھا کرنے لگا۔ اس نے فال بھی نکالی جس کا نتیجہ اس کی خواہش کے برعکس نکلا ۔ فال کے مطابق قافلے کے پیچھے جانے میں اسے کوئی فائدہ نہ تھا مگر اسے تو سو اونٹوں کے انعام کی ہوس نے اندھا کر دیا تھا۔ اس نے فال کو نظر انداز کردیا۔ ادھر اللہ کے رسول کی زبان اقدس سے نکلا :اے اللہ! تو جیسے چاہے ہمیں اس سے بچالے۔ ادھر اللہ کے رسول کی زبان سے یہ کلمات نکلے، ادھر سراقہ کے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں سخت زمین میں دھنس گئے اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس نے متعدد مرتبہ پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اب اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو بھی اس قافلے کا پیچھا کرے گا، برباد و ہلاک ہوجائے گا۔ اس کو یقین ہوگیا کہ محمد () غالب ہوکر رہیںگے۔ سراقہ امان کا طلب گار ہوا ،جو اسے دے دی گئی ۔ سراقہ نے کہا: ’’میرے لیے پروانۂ امن لکھ دیجیے جو میرے اور آپ کے درمیان نشانی کے طور پر رہے گا ۔‘‘ رسول اللہ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓکے غلام عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ سراقہ کو امان نامہ لکھ دو۔ سراقہ نے اللہ کے رسول کو قریش کے عزائم اور سو اونٹوں کے انعام کے بارے میں آگاہ کیا۔ آپ کو زادِراہ اور سازوسامان کی پیش کش کی مگر آپ نے کسی بھی قسم کا سامان لینے سے انکار کردیا اور فرمایا: ’’بس ہمارے بارے میں راز داری سے کام لینا۔‘‘ سراقہ نے یہ امان نامہ سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اللہ کے رسول غزوئہ حنین کے موقع پر جعرانہ میں قیام فرما تھے ۔ انصاری صحابہ کرام کی ایک جماعت اللہ کے رسول کا پہرہ دے رہی تھی تاکہ اجازت کے بغیر کوئی آگے نہ جاسکے۔بنو مدلج کا یہ بدو سردار تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا۔صحابہ کرامؓ اسے روکنے لگے:ارے ، ارے کہاں جاتے ہو، کیا چاہتے ہو؟۔ سراقہ کی یہ شان ہے کہ اس نے وہی ا مان نامہ اپنی جیب سے نکالا۔ ادھر اللہ کے رسول بھی اس کی آواز سن رہے تھے۔ اس نے اپنی دونوں انگلیوں میں اس دستاویز کو بلند کیا اور قدرے اونچی آواز میں کہنے لگا:یا رسول اللہ! میں ہوں سراقہ بن مالک بن جعشم اور یہ رہی میری دستاویز۔اللہ کے رسول نے سراقہ کی طرف دیکھا، آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ وقت یاد آگیا جب قدید کے علاقے میں اس بدو نے ان کا پیچھا کیا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: آج وفا نبھانے ، نیکی اور احسان کرنے کا دن ہے۔ اسے میرے قریب آنے دو۔ سراقہ اللہ کے رسول کے قریب ہوا۔ آپ کو سلام کیا اور اسلام قبول کرلیا اور صحابی ہونے کا شرف حاصل کرلیا۔ سراقہ نے اللہ کے رسول سے ایک سوال کیا: اللہ کے رسول! میں اپنے اونٹوں کے لیے حوضوں میں پانی بھرتا ہوں۔ میرے اونٹوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے اونٹ بھی وہاں آجاتے ہیں۔ اگر میں ان کو بھی پانی پلاؤں تو کیا میرے لیے اجر ہے؟ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا:ہر جاندار چیز کے ساتھ بھلائی کرنے میں اجر وثواب ہے۔