Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گجرات کے چوہدری پنجاب کے چوہدری بننے کی دوڑ سے باہر؟

وزیراعلیٰ عثمان بزدار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اس وقت سیاسی صورت حال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف وفاق میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے تو دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔
اس بات کا اعتراف وزیراعظم عمران خان نے منگل کو یوٹیوبرز سے ایک ملاقات میں بھی کیا ہے جہاں ان سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عثمان بزدار ایک آسان شکار ہیں۔‘
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار ایک آسان شکار تھے تو وہ ساڑھے تین سال سے بھی زیادہ عرصہ پنجاب میں حکومت کیسے کررہے ہیں، کیونکہ تحریک انصاف کے اکثر بڑے رہنما پنجاب میں اس تعیناتی سے ناخوش دکھائی دیتے تھے۔
پنجاب میں عثمان بزدار کی گیم اس وقت زیادہ خراب ہوتی دکھائی دی جب تحریک انصاف کے ہی دو ’مضبوط بڑوں‘ جن میں جہانگیر خان ترین اور علیم خان شامل ہیں، نے لاہور میں چند روز قبل ایک نئے گروپ کی تشکیل کرتے ہوئے بزدار کی وزارت اعلیٰ سے برات کا اظہار کیا۔
اس کے بعد پنجاب میں سیاسی صورت حال میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس سے قبل پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور سابق وزیراعلی پرویز الٰہی، جو کہ جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے ہیں کو سیاسی اکھاڑے میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے کوئی بھی بڑی چال چلنے سے پہلے گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ آئندہ کی سیاسی صورت حال میں ان کو بظاہر ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی تو ایسے میں دکھائی دے رہا تھا کہ ملکی اور صوبائی سیاست میں گجرات کے چوہدری ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر موجود ہیں۔
سینیئر صحافی سلمان غنی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’علیم خان کی چال نے اس وقت پنجاب اور وفاق میں چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔‘

تحریک انصاف کے رہنما علیم خان بھی جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ میں شامل ہوئے ہیں (فائل فوٹو: جہانگیر ترین فیس بُک)

’یہ کہنے کی میرے پاس ایک ٹھوس وجہ ہے اور وہ یہ  ہے کہ پنجاب میں اس وقت ترین اور علیم خان گروپ کے پاس 35 سے 40 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں جبکہ پرویزالٰہی کے پاس کل ملا کر 10 ایم پی ایز ہیں اور انہوں نے ان 10 ایم پی ایز کی بدولت ہی ساڑھے تین سال پنجاب میں سپیکر شپ کو انجوائے کیا۔ یہ ایک اچھی سیاست تھی کہ 10 سیٹوں کے ہوتے ہوئے آپ اتنے بڑے عہدے کو اتنے سال اپنے پاس رکھیں لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔‘
خیال رہے کہ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر کئی طرح کی افواہوں کا بھی بازار گرم ہے۔
منگل کے روز میڈیا کو بعض سیاسی حلقوں سے کچھ خبریں ذرائع کے حوالے سے بھیجی گئیں جن میں سردار عثمان بزدار سے منسوب ایک بیان درج تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عثمان بزدار نے تحریک انصاف کی قیادت کو یہ کہا ہے کہ ’علیم خان مجھے وزیراعلیٰ کے طور پر قابل قبول نہیں جبکہ چوہدری پرویز الہٰی کو یا تو وزیراعلی بنایا جائے یا پھر مجھے ہی رہنے دیا جائے۔‘
ذرائع سے یہ خبر کم وبیش تمام ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کی گئی۔ خبر کے نشر ہونے کے ایک گھنٹے کے بعد وزیراعلیٰ آفس کی جانب سے اس خبر کی بھرپور تردید جاری ہوئی جس میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس قسم کا کوئی بھی بیان نہیں دیا ہے جس میں انہوں نے وزارت اعلیٰ کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو موزوں امیدوار کہا ہو بلکہ وہ مکمل طور پر وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت سردار عثمان بزدار سے منسوب ہر طرح کا بیان جو جھوٹ کا پلندہ ہے اور افواہ پھیلانے کے لیے جان بوجھ کر نشر کروایا جا رہا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے پرویز الہٰی کے حق میں یا مخالف میں کسی بھی طرح کا کوئی بیان نہیں دیا نہ ہی اس بارے میں تحریک انصاف کی قیادت سے کوئی بات کی ہے۔ اسی طرح نہ ہی علیم خان کے خلاف اور نہ ہی علیم خان کے حق میں کسی طرح کی کوئی بات سردار عثمان بزدار سے منسوب کی جائے۔‘

کچھ دن پہلے پرویز الہی پنجاب کی سیاست کا محور سمجھے جارہے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سلمان غنی یہ سمجھتے ہیں کہ ’اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد اس وقت جمع کروائی جب انہوں نے اس بات کا یقین کرلیا کہ وہ دو سیاسی محاذوں پر بیک وقت تحریک انصاف کو انگیج کرسکتے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن کا تمام تر ٹارگٹ ایک ہی ہے البتہ محاذ دو کھول دیے گئے ہیں، ایک محاذ پنجاب میں ہے اور دوسرا وفاق میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پنجاب کے محاذ پر سیاسی لڑائی بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور بظاہر جو صورت حال نظر آرہی ہے اس میں اپوزیشن نے تگڑا ہوم ورک کیا ہے۔‘
’ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید پنجاب میں بھی عثمان بزدارکے خلاف تحریک عدم اعتماد اسی وقت پیش کردی جائے گی جب وفاق میں پیش ہوگی لیکن علیم خان کا منظرعام پر آنا اس سے بھی بڑی صورت حال ہے۔ اس نے دو کام کیے ہیں ایک تو بزدار کی حکومت کو کمزور کیا ہے اور دوسرا پرویز الہٰی کی سیاست کو بھی محدود کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کچھ دن پہلے پرویز الٰہی پنجاب میں سیاست کا محور سمجھے جارہے تھے لیکن اب ان کی اہمیت بہت کم ہوگئی ہے۔‘

ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کسی کی مخالفت یا حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ (فوٹو: اے پی پی)

’وزیراعلیٰ نے علیم خان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا‘
ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے کہا ہے کہ ’وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے وزارت اعلیٰ کے حوالے سے قیادت کو کسی قسم کا کوئی پیغام نہیں دیا۔‘
اس حوالے سے مختلف چینلز پر نشر ہونے والی خبر بے بنیاد اور من گھرٹ ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے علیم خان کے خلاف بھی کوئی بیان نہیں دیا۔‘
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے چوہدری پرویز الٰہی کو منصب دینے یا اپنے پاس رکھنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔‘
ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کسی کی مخالفت یا حمایت کا اعلان نہیں کیا۔

شیئر: