Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، اب آگے کیا ہوگا؟

اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے اور اس سلسلے میں اجلاس بلانے کی درخواست بھی سپیکر کو جمع کروا دی گئی ہے۔
 منگل کو مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کے 86 سے زائد اراکین اسمبلی نے سپیکر کے دفتر میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی۔
آگے کیا ہونا ہے؟
آئین کے آرٹیکل 95 ون کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے ممبران کے 20 فیصد یعنی 69 ارکان کے دستخط ضروری ہیں۔ اس طرح یہ شرط تو اپوزیشن نے پوری کرلی ہے۔
اسی طرح اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کروا دی گئی ہے اور آئین کے آرٹیکل 54 تھری کے تحت جب اسمبلی کے 20 فیصد سے زائد اراکین اس طرح اجلاس بلانے کی درخواست کریں تو سپیکر پابند ہے کہ 14 دن کے اندر اجلاس طلب کرے۔
گویا اب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو 14 دن کے اندر اجلاس طلب کرنا ہوگا۔
آئین کے مطابق اجلاس شروع ہونے کے بعد اس طرح کی تحریک پر سات دن کے اندر فیصلہ ضروری ہے تاہم اس پر ووٹنگ قرارداد پیش کرنے کے بعد تین دن سے قبل نہیں ہوسکتی۔ اس طرح کل 21 دن کے اندر اندر وزیراعظم عمران خان کے عہدے پر برقرار رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ ہوجائے گا۔
قومی اسمبلی کے قواعدوضوابط برائے 2007 کے سیکشن 37 کے تحت قرارداد پیش ہونے کے بعد سیکریٹری اسمبلی پابند ہوگا کہ جلد سے جلد ارکان اسمبلی کو نوٹس دے۔ قواعد کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد سپیکر ووٹنگ سے قبل اجلاس برخاست نہیں کرسکتا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے ماہر اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اس پر پہلے اسمبلی میں بحث ہوگی اور پھر تین دن کے بعد اس پر ووٹنگ کرائی جائے گی۔  

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے 84 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 56 ارکان ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر این اے)

ان کا کہنا تھا کہ ووٹنگ تقسیم کے ذریعے ہوگی یعنی دونوں اطراف کے اراکین علیحدہ ہوجائیں گے اور پھر گنتی کرائی جائے گی۔
اگر اسمبلی کے کل ممبران کی اکثریت یعنی 172 تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیں تو وزیراعظم اپنے عہدے سے فارغ ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی فوری طور پر صدر مملکت کو تحریری طور پر آگاہ کریں گے اور قومی اسمبلی کے سیکریٹری اعلان کو گزٹ میں شائع کریں گے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن سپیکر سے درخواست کرے گی کہ نئے وزیراعظم کے لیے ووٹنگ کرائی جائے۔
قومی اسمبلی میں موجودہ پارٹی پوزیشن
اس وقت قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس بظاہر 179 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے 162 ارکان ہیں جبکہ ایک نشست پی ٹی آئی کے ایم این اے خیال زمان کی وفات کی وجہ سے خالی ہے۔
تاہم گذشتہ دنوں اپوزیشن قیادت نے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور اپوزیشن رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ناصرف 20 سے زائد منحرف حکومتی ارکان اس کے ساتھ ہیں بلکہ چند اتحادی جماعتیں بھی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گی۔

قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے 155 ارکان ہیں (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

قومی اسمبلی ویب سائٹ کے مطابق حکمران پی ٹی آئی کے اس وقت 155 ارکان ہیں جبکہ اس کی اتحادی ایم کیو ایم کے سات، مسلم لیگ ق کے پانچ، باپ پارٹی کے پانچ، جی ڈی اے کے تین اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے ایک اور دو آزاد ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔
دوسری طرف اپوزیشن کیمپ کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن کے 84 ارکان ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 56، ایم ایم اے کے 15، بی این پی کے چار اور اے این پی کا ایک رکن ہے جبکہ دو آزاد اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر بھی اپوزیشن کے ساتھ ہیں، تاہم علی وزیر قید میں ہیں۔

ماضی میں ہونے والی تحاریک عدم اعتماد

سنہ 1973 میں آئین کی منظوری کے بعد حالیہ جمہوری تاریخ میں دیکھا جائے تو کبھی بھی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ 1989 میں اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کی قیادت میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کافی کوششوں کے باوجود ناکام ہوئی تھی۔ اس وقت یہ الزامات بھی لگے تھے کہ اسلامی جمہوری اتحاد نے اپنے ارکان کو پارٹی بدلنے سے روکنے کے لیے چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا تھا جبکہ دوسری طرف بھی ارکان کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا تھا۔ دونوں اطراف سے ارکان کو خریدنے کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے گئے تھے۔
اس کے بعد اگست 2006 میں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد بری طرح ناکام ہوئی تھی۔
اپوزیشن کی طرف سے 136 اراکین نے اس تحریک کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 201 حکومتی اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ سپیکر قومت اسمبلی نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو ناکام قرار دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان تھے۔

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو 14 دن کے اندر اجلاس طلب کرنا ہوگا (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

موجودہ حالات میں بھی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اس کے ارکان کو خریدنے کے لیے پیسہ استعمال کررہی ہے اور بیرونی سازش کے الزامات بھی عائد کیے جارہے ہیں تاہم دوسری طرف اپوزیشن نہ صرف ان الزامات کی تردید کررہی ہے بلکہ جوابی طور پر حکومت پر دباؤ اور پیسے کے الزامات بھی عائد کررہی ہے۔
اس بار کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی یا پھر نئی تاریخ رقم ہوگی اس کا فیصلہ آئندہ تین ہفتوں میں ہوجائے گا۔

شیئر: