’اب روزگار ملنے کی امید نہیں‘، نسل پرستی کا شکار رہنے والے کرکٹر عظیم رفیق
عظیم رفیق کے بیان کے بعد یارک شائر کاؤنٹی کی سینیئر مینجمنٹ اور کوچنگ سٹاف کو عہدے چھوڑنا پڑے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانوی کرکٹر عظیم رفیق نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرکٹ کی دنیا میں نسل پرستی کے بارے میں کھل کر بولنے کے بعد اُن کو ’روزگار‘ نہیں ملے گا۔
پاکستانی نژاد سابق آف سپنر نے یارک شائر کاؤنٹی کی جانب سے کھیلتے ہوئے نسل پرستی کا نشانہ بنائے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ذہنی اذیت کے باعث انہوں نے خودکشی کرنے کا بھی سوچا تھا۔
اکتیس سالہ عظیم رفیق کے انکشافات کے بعد یارک شائر کاؤنٹی کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی بڑی کمپنیوں نے کاؤنٹی کی سپانسرشپ معطل کی اور کلب کو بین الاقوامی میچوں کی میزبانی سے روک دیا گیا تھا۔
یارک شائر کاؤنتی پر عائد کی گئی یہ پابندی حال ہی میں ہٹائی گئی۔
عظیم رفیق کے بیان کے بعد یارک شائر کاؤنٹی کی سینیئر مینجمنٹ اور کوچنگ سٹاف کو عہدے چھوڑنا پڑے تھے۔
انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ نے عظیم رفیق کا بیان سامنے آنے کے بعد کھیل میں نسل پرستی کو روکنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عظیم رفیق نے کہا کہ ان کو بولنے کی اب قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔
برمنگھم میں ایک کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں محسوس کر رہا ہوں کہ اب لوگ مجھ سے رابطہ رکھنے میں خوفزدہ ہیں کیونکہ میں سچ کے لیے لڑتا رہوں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں 31 برس کی عمر میں آپ کے سامنے بے روزگار بیٹھا ہوں اور مجھے ایسی کوئی امید نہیں کہ مستقبل میں بھی کھیل میں کوئی واپس لے گا۔ ایسے کھیل میں جس کو میں اپنی زندگی میں چاہا۔‘
عظیم رفیق نے بتایا کہ ’میں نے سوچا تھا کہ وہ بوجھ جس کو کافی عرصہ سے اٹھا کر پھر رہا ہوں بتا دینے کے بعد کھیل میں واپس آ سکوں گا اور اسی میں اپنے جذبے کو بروئے کار لاؤں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ کھیل کے بعد ان کی خواہش کوچنگ کرنے کی تھی۔ ’اس کے ساتھ میں چاہتا ہوں کہ میڈیا میں کھیل پر تبصرے کا کیریئر اختیار کروں۔‘
عظیم رفیق نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ واپسی کیسے ہوگی کیونکہ کھیل حقائق کو تسلیم نہیں کر رہا۔ ’یقینا مجھے واپس آنے میں خوشی ہوگی۔‘