’یہ جھوٹ بول رہے ہیں‘ روسی ٹی وی سے براہ راست احتجاج نشر
’یہ جھوٹ بول رہے ہیں‘ روسی ٹی وی سے براہ راست احتجاج نشر
منگل 15 مارچ 2022 5:57
روس یوکرین جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والی خاتون نے روس کے سرکاری ٹی وی سٹوڈیو میں گھس کر براہ راست نشریات کے دوران جنگ مخالف نعرے لگائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لندن میں روس کے سرکاری ٹیلی ویژن سٹیشن میں اس وقت افراتفری کی صورت حال پیدا ہو گئی جب ایک احتجاج کرنے والی خاتون نیوز کاسٹر کے پیچھے جا پہنچی۔
انہوں نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی اور روسی زبان میں ’جنگ نہیں‘ کے الفاظ درج تھے۔
پوسٹر پر یہ بھی لکھا کہ ’جنگ کو روک دو، پروپیگنڈے پر اعتبار مت کرو، یہ یہاں جھوٹ بول رہے ہیں۔‘
ان کے علاوہ ایک جملہ مزید بھی درج تھا، تاہم وہ واضح نہیں تھا۔
احتجاج کا یہ غیرمعمولی واقعہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے 14 روز بعد سامنے آیا ہے۔
احتجاج کرنے والی خاتون کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے ’جنگ کو روک دو، جنگ سے انکار‘
احتجاج کے دوران بھی نیوزکاسٹر نے اپنا کام جاری رکھا اور ٹیلی پرومپٹر پر نظریں جمائے رکھیں۔
دوسری رپورٹ کی طرف بڑھنے سے قبل خاتون کو کئی سیکنڈ تک احتجاج کرتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے رات کو ایک ویڈیو خطاب میں احتجاج کرنے والی خاتون کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’میں روسیوں کا شکرگزار ہوں جو سچ بول رہے ہیں، وہ جو غلط معلومات کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اپنے دوستوں، پیاروں کو حقیقت پہنچا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’میں ذاتی طور پر اس خاتون کا شکرگزار ہوں جو پوسٹر کے ہمراہ نیوز چینل میں داخل ہوئیں۔‘
جیل میں قید اپوزیشن لیڈر الیکسی نیولنی کی ترجمان کیرا یرمائش نے واقعے کے بعد ٹوئٹر پر لکھا زبرست، یہ لڑکی تو کُول ہے۔‘
انہوں نے واقعے کی ویڈیو بھی شیئر کی، جس کو بہت کم وقت میں 26 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔
کریملن کا حمایتی ٹی وی چینل
ریاستی ٹی وی لاکھوں روسیوں تک معلومات پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کے ہی نقطہ نظر کو اپنائے ہوئے ہے کہ کریملن کو مجبوراً یوکرین پر حملہ کرنا پڑا جبکہ ’نسل کشی‘ کے حوالے سے بھی روس موقف کا دفاع کرتا رہا ہے۔
یوکرین اور دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے ایک جمہوری ملک پر حملے کے لیے اپنائے جانے والے بہانے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
احتجاج کرنے والی خاتون کی شناخت مرینہ اوسیانیکوف کے نام سے ہوئی ہے، وہ روس کے سرکاری ٹی وی پر کام کرتی ہیں جبکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کا حصہ بھی ہیں۔
اگورا کے سربراہ پیول چیکوف کا ک ہنا ہے کہ مرینہ سیانیکوف کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان کو فوج کا تقدس پامال کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
روس میں چار مارچ کو پاس کیے جانے والے قانون کے مطابق فوج کے خلاف بات کرنے، جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے پر 15 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
واقعے سے کچھ دیر قبل ریکارڈ ہونے والی ایک ویڈیو آن لائن پوسٹ کی گئی ہے، جس میں اوسیانیکوف ایک خاتون سے بات کرتے ہوئے خود کو چینل ون کی ملازم بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس پر شرمندہ ہیں کہ پانچ سال تک کریملن کے پروپیگنڈہ کا حصہ رہیں۔ وہ کہتی ہیں ان کے والد یوکرینی اور والدہ روسی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یوکرین میں اس وقت جو ہو رہا ہے وہ ایک جرم ہے جبکہ روس ایک جارح ملک ہے۔ اس جارحیت کی ذمہ داری صرف ایک شخص پر عائد ہوتی ہے جس کا نام پوتن ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پوری دنیا ہم سے منہ موڑ چکی ہے اور ہماری آنے والی 10 نسلیں اس جنگ کی شرمندگی کو نہیں دھو پائیں گی۔‘
انہوں نے روسی عوام پر زور دیا کہ وہ باہر نکلیں اور احتجاج کریں۔
دوسری جانب احتجاج پر نظر رکھنے والے ادارے او وی ڈی انفو کا کہنا ہے کہ روسی حکومت نے مظاہروں کو دبا دیا ہے۔ اب تک جنگ کے خلاف احتجاج کرنے پر 14 ہزار نو سو 11 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
خیال رہے روس نے 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا اور ابھی تک لڑائی جاری ہے۔ روسی صدر کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی جبکہ یوکرین نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روسی حملہ رکوانے کے لیے کردار ادا کرے۔
پیر کو رات گئے روس نے یوکرین کے ایک ٹی وی ٹاور پر حملہ کیا جس میں نو افراد ہلاک ہوئے، اب تک کی جنگ میں دونوں طرف سے خاصا جانی نقصان ہو چکا ہے۔