پاکستان میں وکلا کی تاریخی ’عدلیہ بحالی تحریک‘ کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار محمود چوہدری سمیت دیگر ججز کی بحالی کو 13 سال مکمل ہو گئے ہیں۔
16 مارچ 2009 کی رات کو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں معزول کیے گئے ججز کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ اعلان انھوں نے اس وقت کیا جب نواز شریف اور اعتزاز احسن کی قیادت میں لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچ کر رکا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں
-
سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی، وکلا کے دو بڑے گروپ آمنے سامنےNode ID: 640996
-
او آئی سی اجلاس، ڈی چوک پر اپوزیشن کے لانگ مارچ کا شیڈول تبدیلNode ID: 653091
اس لانگ مارچ کے حوالے سے اپنی یاداشتیں تازہ کرتے ہوئے اس وقت کی وکلا تحریک کے سرخیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ 'جب یہ محسوس کر لیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ججز کو بحال نہیں کرنا چاہتی یا کم از کم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہیں کرنا چاہتی تو ہم نے راولپنڈی میں وکلا کا اجلاس منعقد کیا۔ جس میں یہ مشورہ دیا گیا کہ لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا جائے کیونکہ یہاں عوامی طاقت زیادہ ہے۔ لیکن میں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ لانگ مارچ کا آغاز کراچی اور کوئٹہ سے بیک وقت ہوگا اور لاہور پہنچ کر سب ایک ساتھ نکلیں گے۔'
انھوں نے کہا کہ 'کراچی میں جب منیر اے ملک اور دیگر کی قیادت میں جلوس نکلا تو پولیس نے ان کو اتنا زیادہ مارا کہ وہ آگے بڑھ ہی نہ سکا۔ دوسری طرف جب ہم کوئٹہ سے نکل کر سندھ کی جانب جا رہے تھے تو ہمیں معلوم ہوا کہ سندھ پولیس کی بھاری نفری ہماری منتظر ہے۔ ہم نے وہاں فیصلہ کیا کہ ہم بذریعہ جہاز لاہور پہنچیں گے لیکن دو دن کی کوشش کے باوجود ہمیں جہاز میں سوار نہیں ہونے دیا گیا۔ اس دوران میڈیا نے ہمیں کوئٹہ اور کراچی میں اتنی کوریج دی کہ لانگ مارچ کا ماحول گرم ہو چکا تھا اور ہر کوئی اس کے اپنے شہر پہنچنے کا منتظر تھا کہ وہ اس میں شامل ہو سکے۔‘

لاہور سے لانگ مارچ کے حوالے سے علی احمد کرد نے بتایا کہ 'طے تھا کہ 16 مارچ کو لاہور سے لانگ مارچ روانہ ہوگا لیکن وکلا قیادت کو روپوش ہونا پڑا جبکہ نواز شریف کو ماڈل ٹاؤن میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے لانگ مارچ کی روانگی ناممکن لگ رہی تھی۔ لیکن اسلامی جمیعت طلبا کے نوجوانوں نے جی پی او کے سامنے ریلی نکالی۔ پولیس نے ان کو تشدد بنانے کی کوشش کی تو انھوں نے پولیس کو بہت حد تک پیچھے دھکیل دیا۔ اس سے شہر میں لانگ مارچ کا شور برپا ہو گیا۔ نواز شریف نے بھی نکلنے کا فیصلہ کیا اور وہ ساڑھے بارہ بجے نکلے، ان کے ساتھ عوام کو دیکھ کر پولیس پسپا ہوئی تو اعتزاز احسن بھی وکلا کو لے کر نکل پڑے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'ہم ٹی وی پر ساری صورتحال دیکھ رہے تھے کہ لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچ گیا ہے۔ یہاں پر لانگ مارچ کو روک دیا گیا تو معلوم ہوا کہ نواز شریف اور اعتزاز احسن دونوں کو آرمی چیف جنرل کیانی نے کال کر کے کہا تھا کہ آپ کے مطالبات پورے ہو رہے ہیں اس لیے تھوڑا انتظار کر لیں۔‘
علی احمد کرد نے کہا کہ 'جب ججز بحال ہو گئے تو لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا لیکن میں آج بتا رہا ہوں کہ لانگ مارچ کا فیصلہ ہمارا تھا۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی حیثیت سے میں اس لانگ مارچ کا محرک تھا لیکن اعتزاز احسن اور نواز شریف نے مجھے فون کرکے اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ اخلاقی طور پر انھیں مجھے فون کرکے جنرل کیانی کے فون اور لانگ مارچ ختم کرنے کے فیصلے سے متعلق آگاہ ضرور کرنا چاہیے تھا۔ مجھے تو گورنر سندھ عشرت العباد نے فون کرکے مبارک باد دی کہ آپ کے مطالبے پر ججز بحال کر دیے گئے ہیں۔'
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ 'یہ بات سچ ہے کہ ججز بحالی میں کردار ادا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وکلا تحریک کا دوسرا مرحلہ اس سطح پر پہنچ چکا تھا کہ کروڑوں لوگ براہ راست اس میں شامل تھے۔ جب لانگ مارچ لاہور سے گوجرانوالہ پہنچا تو معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ اس لیے جنرل کیانی کو کردار ادا کرنا پڑا اور حکومت معزول ججز کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔'

علی احمد کرد نے کہا کہ 'اگر وکلا تحریک نہ ہوتی تو لانگ مارچ نہ ہوتا اور لانگ مارچ نہ ہوتا تو ججز بحال نہ ہوتے۔'
تاہم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جنھوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں ججز بحالی کا اعلان کیا تھا ان کا موقف مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عدلیہ کسی لانگ مارچ سے بحال نہیں ہوئی بلکہ میں نے خود اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے عدلیہ بحال کی تھی۔ پارلیمنٹ نے ایگزیکٹو آرڈر سے بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر ججوں کی بحالی کی توثیق نہیں کی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ ’لانگ مارچ اسلام آباد آ جاتا تو حکومت ٹوٹ جانی تھی اس وجہ سے ججز کو بحال کیا گیا درست نہیں ہے۔ ججوں کی بحالی کا اعلان میں نے کسی سے مشاورت کے بغیر کیا تھا۔ لانگ مارچ سے حکومتیں نہیں جاتیں۔ لانگ مارچ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ شہید بےنظیر بھٹو بھی لانگ مارچ کرتی رہی ہیں اور موجودہ اپوزیشن بھی لانگ مارچ کرتی رہی۔ ‘
خیال رہے کہ فروری 2008 میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو وفاق میں اکثریت ملی تو اس وقت ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججز کو گھروں میں نظر بند کر رکھا تھا۔
پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا تو انھوں نے حلف لینے سے قبل ہی معزول ججز کی نظربندی ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ انتظامیہ نے فوری طور پر ججز کی نظر بندی ختم کر دی۔
