Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی، وکلا کے دو بڑے گروپ آمنے سامنے

سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے درخواست اعتراضات لگا کر واپس کر دی تھی: فائل فوٹو اے ایف پی
پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے سیاست دانوں کی عدالتوں سے تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست کے بعد وکلا کے بڑے گروپ نے اس کی مخالفت کر دی ہے۔  
پاکستان کی تمام بڑی بار ایسوسی ایشنز اور کونسلز میں دو بڑے دھڑے تصور کیے جاتے ہیں۔ ایک دھڑا حامد خان (تحریک انصاف کے سابق نائب صدر) گروپ کہلاتا ہے تو دوسرا دھڑا مرحوم عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب ہے۔  
گزشتہ کچھ سالوں سے عاصمہ جہانگیر گروپ وکلا کی بڑی نمائندہ تنظیموں میں برسراقتدار رہا ہے۔ اس وقت بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کا تعلق بھی عاصمہ جہانگیر گروپ سے ہے۔  
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سیاست دانوں کی نااہلی کی درخواست پر صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن مقصود بٹر (حامد خان گروپ) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عدالت میں دائر کی گئی اپنی درخواست واپس لے۔  
صرف یہی نہیں ممبران پاکستان بار کونسل شفقت چوہان اور اشتیاق اے خان (حامد خان گروپ) نے بھی کچھ اس قسم کا مطالبہ کیا ہے۔  
البتہ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل خواجہ محسن عباس اور فنانس سیکریٹری نے پیٹیشن کی حمائت کا اعلان کیا ہے۔ کیونکہ یہاں پے نمائندگی کرنے والوں کا تعلق عاصمہ جہانگیر گروپ سے ہے۔  
تاحیات نااہلی ختم کرنےکی اس پیٹیشن پر وکلا کے دھڑوں کی یہ تقسیم کس حد تک اس مقدمے پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟
پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہمیں اس درخواست سے کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں اس طرح کی درخواست سپریم کورٹ جیسے آئینی فورم پر نہیں آئے گی تو کہاں آئے گی؟ مسئلہ ہمارا صرف یہ ہے کہ بار ایسوسی ایشنز کو سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں نہیں آنا چاہیے‘  
انہوں نے بتایا کہ ’ہم صرف اس کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ بار ایسوسی ایشنز نیوٹرل فورم ہیں اور ان کا کام صرف آئین اور قانون کی پاسداری کروانا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا ماوتھ پیس بننا نہیں۔ یہ درخواست متاثرہ فریق لے کر کیوں نہیں عدالت آئے؟ سول سوسائٹی یہ درخواست لا سکتی ہے۔ لیکن وکلا کی نمائندہ تنظٰیم کو یہ زیب نہیں دیتا۔ ہم صرف اتنی سی بات کر رہے ہیں۔ ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ ہماری آواز کا کوئی اثر ہو گا یا نہیں ہم بس اپنی آواز ریکارڈ پر لا رہے ہیں‘  
خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تنخواہ چھپانے کے ایک مقدمے میں الیکشن لڑنے کے لئے تاحیات نااہل قرار دے رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اور سابق جنرل سیکریٹری جہانگرین ترین بھی اثاثے چھپانے کے الزام میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے ہیں۔

مسئلہ ہمارا صرف یہ ہے کہ بار ایسوسی ایشنز کو سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں نہیں آنا چاہیے: حامد خان( فائل فوٹو اے ایف پی)  

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے گذشت ہفتے سیاست سے تاحیات نااہل کرنے کی آئینی شق کے خلاف سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی تھی جس پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر درخواست واپس کر دی تھی۔  
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پیٹیشنر احسن بھون نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم رجسٹرار آفس کے اعتراض کا جواب تیار کر رہے ہیں اور جلد ہی اس پیٹیشن کو دوبارہ دائر کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ بھی اس درخواست کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ایسا کسی کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لوگ ذاتی حیثیت میں اپنے نمبر بنانا چاہتےہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ دیکھیں کہ اگر ہائی کورٹ بار کے صدر مقصود بٹر نے مخالفت کی ہے تو انہی کے نائب صدر اور سیکریٹری نے ان کی بات رد کر دی ہے۔ آپ یہ تو کہتے سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست دائر کی ہے آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ لاہور ہائی کورٹ بار نے اس کی مخالفت کی ہے۔ صرف صدر نے ذاتی طور پر ایسا کیا ہے یہ بار کا فیصلہ نہیں۔‘  
کیا اس سے وکلا کی نمائندہ تنظیم کا غیرجانبدار ہونا متاثر نہیں ہو گا؟

جو لوگ بھی اس درخواست کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ایسا کسی کے کہنے پر کر رہے ہیں: احسن بھون( فوٹو فیس بک)

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کہنا تھا ’ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم نے کسی ایک جماعت کی طرف سے یہ درخواست دائر نہیں کی ہے بلکہ سینکڑوں ایسے افراد ہیں جن کے حقوق متاثر ہوئے ہیں اور ان کا تعلق ہر سیاسی جماعت سے ہے۔ اور ان میں وزیر اعظم سے لے کر کونسلر تک شامل ہیں۔ تو ایسے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جیسی توانا آواز اگر یہ کہ رہی ہےکہ اس شق کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے تو اس سے ہمارا غیرجانبدارانہ پن ظاہر نہیں ہوتا۔ ہم صرف آئین اور قانونی کی بالا دستی کی بات کررہے ہیں۔ اور وکلا کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے‘  

شیئر: