Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کے نشانے پر آنے والا سندھ ہاؤس کیا ہے؟

 سندھ ہاؤس کا قیام 1973-74 میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عمل میں لایا تھا۔ فوٹو: وکیپیڈیا
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد جہاں بہت سے تنازعات سامنے آئے ہیں ان میں ایک تنازع سندھ ہاؤس سے بھی جڑا ہے جس کی وجہ سے سندھ ہاؤس آج کل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔  
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف فائیو میں جہاں آئینی و قانونی ادارے قائم ہیں وہیں صوبائی حکومتوں کی ملکیت میں کچھ ہاؤسز ہیں جن میں پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور کشمیر ہاؤس شامل ہیں۔ 
یہ ہاؤسز وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن میں گورنر اور وزرائے اعلیٰ کے مہمان خانے یعنی انیکسیز بنی ہوئی ہیں جن کا استعمال ان کی صوابدید ہے۔ ہر ہاؤس میں رہائشی کمرے ہیں جن کو متعلقہ صوبوں کے وزراء، ارکان اسمبلی، صوبائی حکام اور مخصوص شہریوں کو یومیہ کرائے پر دیا جاتا ہے۔  
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پہلے الزام لگایا کہ سندھ ہاؤس میں ارکان قومی اسمبلی کو خریدنے کے لیے نوٹوں کی بوریاں کھولی جا رہی ہیں۔ بعد ازاں وفاقی وزراء نے کہا کہ تحریک انصاف کے 12 منحرف ارکان کو بھی سندھ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی جانب سے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ ہاؤس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن کے ارکان اپنے تحفظ کی خاطر سندھ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔  
سندھ ہاؤس اگرچہ اسلام آباد میں موجود ہے لیکن اس کا انتظام و انصرام سندھ حکومت کرتی ہے کیونکہ یہ سندھ کی ملکیت ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی حکومت یا اس کا کوئی ادارہ وہاں کوئی ایسی مداخلت نہیں کر سکتا جو ان کے اختیار میں نہیں آتی۔ 
سندھ ہاؤس کی انتظامیہ کے مطابق سندھ ہاؤس کا قیام 1973-74 میں ذوالفقار علی بھٹو نے عمل میں لایا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد صوبائی حکام کے وفاقی دارالحکومت میں آمد کے وقت ان کو مناسب رہائش فراہم کرنا تھا۔  

بے نظیر بھٹو کے دور میں سندھ ہاؤس کو وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

کیئر ٹیکر محمد ریاست کے مطابق ’25 ایکڑ پر پھیلے تاریخی سندھ ہاؤس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے وزیر اعظم ہاؤس کا درجہ بھی دیا گیا تھا۔ 1988 میں جب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو وزیر اعظم ہاؤس میں تزئین و آرائش جاری تھی تو انھوں نے سندھ ہاؤس کو وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دلوایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دو مواقع پر سندھ ہاؤس وزیر اعظم ہاؤس قرار دیا جا چکا ہے۔‘ 
انھوں نے بتایا کہ ’سندھ ہاؤس میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سمیت سندھ کی متعدد سیاسی شخصیات اور کئی عالمی رہنماؤں نے بھی قیام کیا ہے۔‘  
سندھ حکومت کے محکمہ ورکس کے مطابق ’سندھ ہاؤس کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے یہاں پر 97 ملازمین رکھے گئے ہیں۔ اس میں متعدد بلاکس ہیں جن میں 30 کے قریب کمرے، ہالز، لابیز اور پاکس موجود ہیں۔ جبکہ مزید کمروں کی تعمیر اور وی وی آئی پی بلاک کی تعمیر کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔‘  
سندھ ہاؤس میں ایک جامع مسجد بھی ہے۔ ججز کالونی سے ملحقہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے اکثر ججز بھی وہاں نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔  
سندھ ہاؤس میں راہداریوں، لابیز اور کمروں میں سندھ کی ثقافت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ حکومت سازی اور دیگر اہم مواقع پر سندھ ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اکثر و بیشتر یہاں پریس کانفرنس کرتے رہے ہیں۔  
پرویز مشرف کے دور میں سندھ ہاؤس بند کر دیا گیا تھا تاہم 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اسے دوبراہ کھول کر تزئین و آرائش کی گئی۔  
حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری جب سندھ سے لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تھے تو اس سے اگلے دن انھوں نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کے اعزاز میں یہاں پر ظہرانے کا اہتمام بھی کیا تھا۔  

شیئر: