وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد جہاں بہت سے تنازعات سامنے آئے ہیں ان میں ایک تنازع سندھ ہاؤس سے بھی جڑا ہے جس کی وجہ سے سندھ ہاؤس آج کل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف فائیو میں جہاں آئینی و قانونی ادارے قائم ہیں وہیں صوبائی حکومتوں کی ملکیت میں کچھ ہاؤسز ہیں جن میں پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور کشمیر ہاؤس شامل ہیں۔
یہ ہاؤسز وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن میں گورنر اور وزرائے اعلیٰ کے مہمان خانے یعنی انیکسیز بنی ہوئی ہیں جن کا استعمال ان کی صوابدید ہے۔ ہر ہاؤس میں رہائشی کمرے ہیں جن کو متعلقہ صوبوں کے وزراء، ارکان اسمبلی، صوبائی حکام اور مخصوص شہریوں کو یومیہ کرائے پر دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
تحریک عدم اعتماد، ’چوہدریوں سے کہوں گا عمران خان کے ساتھ رہیں‘Node ID: 652921
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پہلے الزام لگایا کہ سندھ ہاؤس میں ارکان قومی اسمبلی کو خریدنے کے لیے نوٹوں کی بوریاں کھولی جا رہی ہیں۔ بعد ازاں وفاقی وزراء نے کہا کہ تحریک انصاف کے 12 منحرف ارکان کو بھی سندھ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ ہاؤس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن کے ارکان اپنے تحفظ کی خاطر سندھ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
سندھ ہاؤس اگرچہ اسلام آباد میں موجود ہے لیکن اس کا انتظام و انصرام سندھ حکومت کرتی ہے کیونکہ یہ سندھ کی ملکیت ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی حکومت یا اس کا کوئی ادارہ وہاں کوئی ایسی مداخلت نہیں کر سکتا جو ان کے اختیار میں نہیں آتی۔
سندھ ہاؤس کی انتظامیہ کے مطابق سندھ ہاؤس کا قیام 1973-74 میں ذوالفقار علی بھٹو نے عمل میں لایا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد صوبائی حکام کے وفاقی دارالحکومت میں آمد کے وقت ان کو مناسب رہائش فراہم کرنا تھا۔
