Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کا روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو ’نسل کشی‘ قرار دینے کا فیصلہ

اگست 2017 سے اب تک 700,000 سے زیادہ روہنگیا مسلمان میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں جا چکے ہیں۔۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بائیڈن انتظامیہ یہ اعلان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ میانمار روہنگیا مسلمانوں کی آبادی پر کئی برسوں سے جاری ظلم دراصل ’نسل کشی‘ ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن پیر کو امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں ایک تقریب کے دوران طویل عرصے سے متوقع ایک اعلن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ اس اقدام کا عوامی سطح پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
یہ اقدام میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف نئے سخت اقدامات کی نشاندہی نہیں کرتا کیونکہ وہ 2017 میں ملک کی مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا نسلی اقلیت کے خلاف مہم شروع ہونے کے بعد امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔
تاہم امریکی حکومت کا یہ اعلان میانمار حکومت پر اضافی بین الااقومی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے جو پہلے سے ہی عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی سے متعلق الزامات کا سامنا کررہی ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپ اور قانون ساز مل کر ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ پر یہ اقدام کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
کانگریس کے ایک رکن جیف مرکلے نے متوقع اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بائیڈن انتظامیہ کی تعریف کرتا ہوں کہ آخرکار روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔‘
محکمہ خارجہ کے اعلان کے فوری بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں بلنکن ہیر کو ہولوکاسٹ میوزیم میں میانمار میں ہونے والے مظالم کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کریں گے اور ’میانمار نسل کشتی کا راستہ‘ کے عنوان پر مبنی نمائش کا دورہ بھی کریں گے۔
انسانی ہمدردی کے کام کرنے والے گروپ ریفیوجیز انٹرنیشنل نے بھی اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ ’امریکہ کی جانب سے نسل کشی کو تسلیم کرنے کا اعلان ایک خوش آئند ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے انصاف کے عزم کی ٹھوس علامت بھی ہے جو آج تک فوجی حکومت کے ہاتھوں زیادتیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ اگست 2017 سے اب تک 7 لاکھ سے زائد زائد روہنگیا مسلمان بدھ مت کی اکثریت والے ملک سے بھاگ کر بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔

شیئر: