پاکستان کی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان سے کہا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف اور آرٹیکل 63 اے کا تعلق ثابت کریں۔
جمعے کو دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہ کہ ’صدر نے آئینی تشریح کا کہا ہے۔ ادھر اُدھر نہیں جا سکتے۔ ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔‘
مزید پڑھیں
-
’بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو اکٹھا کر کے نہیں سنا جا سکتا‘Node ID: 655401
قبل ازیں سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ ’مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے۔ مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔ جب ایک رکن پارٹی کے انتخابی نشان پر ووٹ لیتا ہے تو اس کے اور پارٹی کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے۔ اس اعتماد کو توڑا نہیں جا سکتا۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں۔ اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے اور خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مضبوط جماعتی سسٹم مضبوط جمہوری نظام کا ضامن ہے۔ آئین میں جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہی نہیں قرار دیا گیا۔ خود آرٹیکل 63 اے چار آپشنز دے رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ رکن کے پاس چوائسز ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’جب ایک رکن جماعت کا حصہ بنتا ہے تو پارٹی وفاداری کا دستخط دیتا ہے۔ کیا 63 اے کے تحت پارٹی سربراہ نے اراکین کو ہدایات جاری کی ہیں؟ اگر وزیراعظم نے کوئی ہدایت جاری کی ہیں تو عدالت کو آگاہ کریں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آپ اٹارنی جنرل ہیں۔ پارٹی نمائندے یا وکیل نہیں۔ اگر وزیراعظم کوئی غلط کام کرے کیا تب بھی پارٹی سے وفاداری نبھانا ضروری ہے؟‘
اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ’وزیراعظم پہلے رکن اسمبلی پھر وزیراعظم کا حلف لیتا ہے۔ وزیراعظم اور ارکان کے حلف کی ذمہ داریاں مختلف ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ’اگر بیلٹ پیپر کو دیکھا جائے تو امیدوار کے نام کے سامنے انتخابی نشان ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ووٹر امیدوار کو نہیں بلکہ انتخابی نشان کو ووٹ دیتا ہے۔ اس لحاظ سے تو منتخب رکن کا جماعت کی منشا پر چلنا ضروری ہو جاتا ہے۔‘
جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’برصغیر میں یہ پریکٹس ہے کہ پارٹی کو منشور کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ جب ملٹری کورٹس بنیں تو رضا ربانی نے ذاتی اختلاف کے باوجود پارٹی موقف کی حمایت کی۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے انحراف کی کارروائی سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ اس سپرٹ کے ساتھ ووٹ دیا تھا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’آپ ان ارکان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ میری پارٹی ٹکٹ اور منشور سے آ کر جماعتی اختلاف نہیں کر سکتے۔ آزادی اظہار رائے کی بھی حدود ہیں۔‘
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ایک بندہ اظہار رائے کر رہا ہے تو کیا اس کو تاحیات نااہل کر دیا جائے۔ اگر آپ کو کوئی کہے کہ اٹارنی جنرل ہونے کے بعد پانچ سال پریکٹس نہ کریں تو؟‘
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’آپ ایک بیمار شخص پر چیخ کر اس کی موت کی وجہ بن کر آزادی رائے انجوائے نہیں کر سکتے۔‘

اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 63 اے آپشنز دیتا ہے کہ چار چیزوں پر آپ پارٹی پالیسی سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ اگر آپ نے اختلاف کرنا ہے تو تین حرف لکھیں اور گھر چلے جائیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ’اگر وزیراعظم ملک کی سلامتی کے خلاف کارروائی کرے تو میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سر وزیراعظم کا ذکر چھوڑ دیں، یہاں ان کا ذکر نہیں ہو رہا۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 63 اے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آتی، آرٹیکل 63 اے اضافی رہا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’دعویٰ کرتا ہوں تاحیات نااہلی انحراف کا خاتمہ کرے گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ تاحیات نااہلی کس بات پر ہونی چاہیے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بہتر نہ ہوتا کہ صدر تمام یا پارلیمانی لیڈرز کو بلا کر مشورہ لیتے پھر عدالت آتے۔ انہوں نے بس سوال لیے اور ریفرنس بھیج دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلام اسحاق خان یہی کرتے رہے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ’یاد رکھیں کہ ابھی جرم ہوا نہیں کہ آپ رائے مانگ رہے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قتل کی سزا قتل ہونے سے پہلے متعین ہوئی۔ جرم سے پہلے سزا کا تعین ضروری ہے۔ کیا پتہ انحراف نہ ہو مگر اس کی سزا متعین ہونا ضروری ہے۔ انحراف نہ بھی تب بھی قانون تو واضح ہو جائے گا۔ اس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ قانون پہلے ہی بہت واضح ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے۔ تشریح سے ادھر اُدھر نہیں جا سکتے۔ ممکن ہے کہ ہم رائے دینے سے انکار کر دیں۔‘

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’آئین میں خلا کون پُر کرے گا۔ کیا ہمیں آئین میں موجود خلا کو پُر کرنا ہوگا۔ 2009 میں 18 ویں ترمیم کا بل ایوان سے منظور ہوا تھا۔ 2017 میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہوئی لیکن پارلیمان نے 63 اے کو نہیں چھیڑا۔ آپ کو کس سے ڈر لگتا ہے؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کیا ہم ایوان سے منظور بل پر فل اسٹاپ لگا سکتے ہیں؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’وسیم سجاد نے انحراف کو کینسر کہا ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں وہ آخری شخص ہوں گا جو لوٹوں کی حمایت کرے، دیکھنا یہ ہے کہ انحراف کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ اس کے مقاصد اگر عوامی ہوں تو کیا اس کو بھی نااہل قرار دیا جا سکتا ہے؟‘
جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’چوری چاہے کسی کا پیٹ بھرنے کے لیے ہو، غلط اقدام ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر انحراف کرنے والے یہ کہہ دے کہ اس نے انحراف اس لیے کیا کہ آپ چوری کر رہے ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے استفسار کہ ’انحراف کے نتائج آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے۔ انحراف پر نااہلی ہوگی یا اسمبلی رکنیت ختم ہو گی؟ الیکشن ایکٹ 1962 تو کہتا ہے کہ وہ منتخب ہو کر دوبارہ ایوان میں آ سکتا ہے۔ اب آپ نے بتانا ہے کہ اس کی تاحیات نااہلی کس بنیاد پر ہوگی۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کہے کہ انحراف 62 ون ایف تاحیات نااہلی کے قانون سے مختلف ہے تو وہ بھی ڈکلیئریشن ہی ہوگی۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ 63 اے پر کوئی ڈکلیئریشن دے گی تو اس کے بھی نتائج ہوں گے۔‘
