پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس یکجا کرنے کے معاملے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جسٹس چیف پاکستان سے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ بار کی سنیچر کو درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔ حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو اکٹھا کر کے نہیں سنا جا سکتا۔‘
مزید پڑھیں
خط میں کہا گیا ہے کہ ’بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔ درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کر کے کیسے سنا جا سکتا ہے؟ درخواست 184/3 کے اختیار سماعت میں سنی جا رہی ہے جس کے تحت عدالت حکم دے سکتی ہے یا فیصلہ سنا سکتی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیار سماعت ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ’آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے۔ بار کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں چوتھے، آٹھویں اور 13 ویں نمبر کے فاضل ججز کو شامل کیا گیا۔ ایسا کر کے آپ نے اپنے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کیا۔ اہم آئینی معاملات کی سماعت کے لیے سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کا صوابدیدی اختیار طے کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے طے کیا تھا کہ سینیئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔‘
انہوں نے چیف جسٹس کو اپنے خط میں لکھا کہ ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر پوری قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے۔ جج کا حلف کہتا ہے وہ اپنے فرائض منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا۔ کہاوت ہے کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا نظر بھی آئے۔ کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطہ اخلاق میں پانچویں نمبر میں بھی درج ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’سپریم کورٹ رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/March/42951/2022/3015191-1548122605.jpg)