عمر سرفراز چیمہ 1996 سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن ہیں اور مختلف تنظیمی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے، نئے گورنر پنجاب کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، آئین کے مطابق ڈپٹی سپیکر قائم مقام گورنر ہوں گے۔‘
وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے، نئے گورنر پنجاب کا اعلان بعد میں کیا جائیگا، آئین کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قائم مقام گورنر ہوں گے
خیال رہے کہ چوہدری محمد سرور نے 2018 میں گورنر پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے دور میں بھی پنجاب کے گورنر رہے تھے۔
گذشتہ سال دسمبر میں سوشل میڈیا پر ایسے بیانات بھی گردش کرتے رہے جن میں وہ وہ اپنی ہی حکومت پر بظاہر تنقید کرتے دکھائی دیے۔
ایک بیان جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اس میں ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف پاکستان کو 6ارب ڈالر کا قرضہ دے رہا ہے اور یہ قرضہ اگلے تین سالوں میں دیا جائے گا یعنی ہر سال دو ارب ڈالر اور اس کے بدلے میں انہوں نے پاکستان کے تمام اثاثے گروی رکھوا لے لیے ہیں۔‘
اس سے پہلے ان سے ایک اور بیان بھی منسوب کرکے چلایا جاتا رہا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس لیے ڈیلیور نہیں کر سکا کیونکہ جو پوزیشن مجھے دی گئی تھی وہ ایک ناکارہ پوزیشن تھی اور ایک حساب سے مجھے سائیڈ پر لگا دیا گیا تھا اس لیے میں کوئی کام نہیں کر سکا۔‘
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کی طرف سے جاری ایجنڈے کے مطابق آج 11 بج کر 30 منٹ پر اجلاس شروع ہوگا جس میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر ووٹنگ ہوگی۔
تحریک انصاف کی طرف سے چوہدری پرویز الہیٰ وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن نے حمزہ شہباز کو اپنا امیدوار نامزد کر رکھا ہے۔
سنیچر کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر پرویز الہیٰ نے الیکشن کا شیڈول جاری کیا تو پانچ بجے تک دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے کاغذات جمع کروا دیے تھے۔
دونوں طرف سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ انہیں مطلوبہ ممبران کی حمایت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے لیے 186 ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
اس سے قبل عثمان بزدار 2018 میں 196 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت ق لیگ تحریک انصاف کی حلیف جماعت تھی۔
تاہم اب صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر پھوٹ پڑنے سے کئی ہم خیال گروپ وجود میں آ چکے ہیں۔ دو بڑے گروپوں جہانگیر ترین اور علیم خان نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔
جبکہ چوہدری پرویز الہی کا دعویٰ ہے کہ ترین گروپ کے تین ایم پی ایز نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح غضنفر چھینہ کے گروپ نے بھی پرویز الہی کو ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔
سابق وزیر اسد کھوکھر اور نذیر چوہان نے البتہ حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں تو قومی اسمبلی میں ان کے والد شہباز شریف وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔