ایک طرف تحریک انصاف نے اپنے ہی گورنر چوہدری سرور کو برطرف کر دیا ہے تو دوسری طرف بظاہر بہت جلدی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلایا جو بعد ازاں ملتوی کرنا پڑا۔
اس وقت صوبے میں نئے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ عملی طور پر حکومت ختم ہے جبکہ عثمان بزدار نئے وزیراعلیٰ کے آنے تک ابھی عارضی وزیراعلیٰ کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گورنر اور وزیراعلیٰ کو اسلام آباد طلب کر لیا ہے۔ اس میں سب سے بڑا سوال ہے کہ آخر تحریک انصاف پنجاب میں کرنا کیا چاہتی ہے؟
مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ اصل میں صوبائی اسمبلی کو بھی توڑنا چاہتے ہیں جیسے انہوں نے قومی اسمبلی کو غیر آئینی طریقے سے تحلیل کیا۔ کل ایوان میں ہمارے پاس 199 اراکین تھے جنہیں دیکھتے ہی ایک چال کے تحت ہنگامہ کروا دیا گیا اور ساتھ اسمبلی کا اجلاس موخر کر دیا۔ آئینی طور پر یہ لیڈر آف دی ہاؤس کے انتخاب کے عمل کو معلق نہیں کر سکتے تھے۔‘
خیال رہے کہ اتوار کو ہونے والے اجلاس میں صحافیوں کو اسمبلی کی کارروائی نہیں دیکھنے دی گئی اور پریس گیلری کو تالے لگا دیے گئے۔
تاہم جو معلومات پردے کے پیچھے سے میڈیا تک پہنچی ہیں ان کے مطابق ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی زیر صدارت جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو تحریک انصاف کی خواتین اراکین نے اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اپنے ساتھیوں کو اٹھا کر حکومتی بینچز پر لانے کی کوشش کی جس پر اپوزیشن کی خواتین نے ان کو روکا اور ہاتھا پائی کی صورت حال پیدا ہو گئی جس پر پانچ منٹ میں ہی سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
اپوزیشن الزام لگاتی رہی کہ یہ ہنگامہ جان بوجھ کر کیا گیا جبکہ تحریک انصاف نے اس الزام کو مسترد کیا۔
مسلم لیگ ق کے سینیئر رہنما پرویز الٰہی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے 186 اراکین پورے تھے اپوزیشن کے ہنگامے کی وجہ سے اجلاس چھ اپریل تک ملتوی ہوا۔
جب ان سے سوال کیا کہ لڑائی کی وجہ کیا تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ حکومت بینچز کی خواتین اپنے ساتھیوں کو اکھٹا کر رہی تھیں کہ اپوزیشن کی خواتین نے حملہ کر دیا۔
تاہم اجلاس ختم ہونے کے باوجود اپوزیشن کے 198 اراکین ہال کے اندر ہی بیٹھے رہے جبکہ انتظامیہ نے بجلی اور پانی بند کر دیا۔ یہ دھرنہ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد ختم کر دیا گیا۔
کیا وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو گا؟
اپوزیشن پارٹی ن لیگ کی ترجمان عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کے الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ ’ہمیں خدشہ ہے کہ اسمبلیاں توڑ دیں گے اور وزیر اعلی کا انتخاب نہیں کروائیں گے۔‘
دوسری طرف پرویز الٰہی کے دفتر نے اردو نیوز کو بتایا کہ الیکشن میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ پہلے تھی نہ اب ہو گی۔ چھ تاریخ کو اب الیکشن ہوگا۔
آئینی ماہر بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بغیر کوئی چارہ نہیں یہ آئین کی ضرورت ہے۔ ڈپٹی سپیکر کسی ناگزیر وجہ سے مختصر وقت کے لیے اجلاس ملتوی کر سکتا ہے۔ اب نئی تاریخ چھ اپریل ہے تو دیکھتے ہیں۔ البتہ اس وقت گورنر نہ تو اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے اور نہ وزیر ایسی کوئی سفارش کرنے کا مجاز ہے۔ وفاق سے یہاں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں تو وزیراعلیٰ مستعفی ہو چکا ہے۔ اور ابھی عدم اعتماد بھی ٹیبل پر ہے۔‘
سیاسی اور آئینی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت بحرانی کیفیت ہے اور زیادہ تر چیزیں اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے عیاں ہو جائیں گی۔
تجزیہ کار سلمان غنی نے کہتے ہیں کہ یہ دلچسپ حکومت ہے جو اپنی ہی اسمبلیاں توڑ کر جشن بھی منا رہی ہے۔ سیاسی تاریخ میں منظور وٹو نے بھی اپنی اسمبلیاں توڑ تھیں لیکن انہوں نے بعد میں اس کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا۔
’یہ بحران بھی تحریک انصاف کو وہ نتائج نہیں دے گا جس کی یہ توقع کر رہے ہیں ۔ پنجاب کی اسمبلی کو اس وقت جان بوجھ کر معلق کیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کرنا تھا اب سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہ انتظار کریں گے۔‘