نئی دہلی... نوٹ بندش سے غریبوں کو ہی نہیں بلکہ صنعتی شعبے کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ مودی حکومت نے بدعنوانی کیخلاف تحریک شروع کی تھی لیکن اسکے منفی اثرات سامنے آئے ہیں جس نے اقتصادی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ پارلیمانی پینل کی تحقیقاتی رپورٹ راجیہ سبھا میں پیش کردی گئی۔ نوٹ بندش کے معاملے پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں گرما گرم بحث کے دوران پارلیمانی کمیٹی کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سوبی رامی ریڈی کی صدارت میں قائم کی گئی تھی جسے مودی حکومت کے ذریعے 50 دن کے اندر نوٹ بندش سے متعلق 74 نوٹیفکیشنز کے اجرا کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ پارلیمانی پینل کی رپورٹ میں جہاں ایک طرف اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ حکومت کا یہ اقدام بدعنوانی ، ٹیکس چوری کالا دھن اور جعلی نوٹوں کیخلاف تھا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس اقدام نے کم آمدنی والوں اور دیہی علاقوں کے گھرانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ بظاہر کرنسی اصلاح کا نام لیاگیا تھا لیکن اس سے صنعتی سرگرمیاں ایک طرح سے ٹھپ ہوکر رہ گئیں حالانکہ وزارت خزانہ نے جس نے نوٹ بندش سے متعلق نوٹیفیکشن جاری کئے تھے منفی اثرات زائل کرنے کیلئے متعدد اقدامات بھی کئے مگر اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس مہم نے معیشت میں ہلچل پیدا کردی۔ اقتصادی پیداوار کےلئے خطرات بھی نمایاں ہوگئے۔ پارلیمانی پینل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کالے دھن سے نمٹنے کیلئے بنیادی طور پر سیاسی ارادے کی ضرورت ہے ۔ رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ بدعنوانی ایک مسئلہ ہے لیکن اس سے نمٹنے کیلئے جو کچھ کیاگیا اس نے ایمانداروں ، محنت کشوں اور وقت پر ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کو بھی متاثر کیا۔