Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی ترجمان نے کن معاملات پر موقف واضح کیا؟

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں حالیہ دنوں ہونے والے واقعات سمیت کئی ایشوز پر مفصل گفتگو کی اور فوج کے موقف کو واضح کیا۔
میجر جنرل بابر افتخار نے اپنے پریس کانفرنس میں بہت سے معاملات پر روشنی ڈالی۔
مبینہ دھمکی آمیز خط کے حوالے کیا کہا؟
میجر جنرل بابر افتخار نے وضاحت کی کہ سفارتی مراسلے کے حوالے سے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اعلامیے میں اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذکر ہے اور غیر سفارتی زبان استعمال ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
آرمی چیف کی جانب سے تین آپشنز دینے کی تردید
اس سوال پر کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سامنے کوئی مطالبات رکھے تھے اور اگر رکھے تھے تو وہ کیا تھے؟ میجر جنرل بابر افتخار نے جواب میں کہا کہ ’وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھی گئی تھیں۔ پرائم منسٹر آفس کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ کیا گیا تھا، یہ ڈیڈلاک جب برقرار تھا کہ اس میں کوئی بیچ بچاؤ کی بات کریں۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اُس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی۔ تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پرائم منسٹر ہاؤس گئے اور وہاں پر ان کے (وزیراعظم) کے دوسرے رفقا بھی تھے، تو وہی بیٹھ کر یہ تین آپشنز ڈسکس ہوئے کہ کیا کیا ہو سکتا ہے۔

تین آپشنز کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ان تین آپشنز میں سے ایک تھا کہ تحریک عدم اعتماد جاری رہے۔ دوسرا وزیراعظم استعفیٰ دے دیں اور تیسرا یہ کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں۔ جو تیسری آپشن تھی اس پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے۔ آپ ہمارے ایما پر اُن (اپوزیشن) سے بات کریں۔‘
’تو آرمی چیف جو اس وقت اپوزیشن تھی، پی ڈی ایم ان کے پاس لے کر گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں (اپوزیشن) نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے کے مطابق چلیں گے۔ بس یہ تھا کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہ رکھا گیا اور نہ ہم نے دیا۔‘
آرمی چیف کے مدت ملازمت کے حوالے سے  ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیا کہا؟
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ نہ تو مدت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ نہ تو مدت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔ (فوٹو: آئی ایس پی آر)

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف اپنی مدت پوری کرکے رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کی وضاحت
ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی چیف کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طبیعت ناساز ہونے کہ وجہ سے آرمی چیف نے شرکت نہیں کی تھی۔

امریکہ نے فوجی اڈے نہیں مانگے

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا۔
’اگر مطالبہ ہوتا تو جواب انکار میں ہی ہوتا، ملک کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، ایٹمی اثاثےکسی ایک سیاسی قیادت سےمنسلک نہیں، اب تک جتنی حکومتیں آئیں ایمانداری سے انہوں نے اسےآگے بڑھایا، پاکستان کےایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
فوج کے اندر جانبدار اور غیر جانبدار کی بحث
میجر جنرل بابر افتخار نے اس سوال پر کہ کیا فوج کے اندر جانبدار اور غیر جانبدار کی جنگ چل رہی ہے اور اسی کی بنیاد پر حالیہ صورتحال پیدا ہوئی؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’شاید آپ کو فوج کی سوچ کا اندازہ نہیں ہے۔ فوج یونیٹی آف کمانڈ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ جس میں چیف آف آرمی سٹاف جس طرف دیکھتا ہے سات لاکھ فوج اس طرف دیکھتی ہے۔‘
’اس میں آج تک کبھی کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی انشا اللہ آگے کبھی آئے گی۔ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے، اور پوری فوج اپنی قیادت کے اوپر فخر کرتی ہے۔‘

شیئر: