Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کمیشن 30 روز کے اندر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرے: اسلام آباد ہائی کورٹ 

عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہر صورت 30 روز کے اندر کیس کا فیصلہ کریں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز کے اندر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کا ریکارڈ منحرف رہنما اکبر ایس بابر کو دینے سے روکنے کی درخواست پر عدالت نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے پی ٹی آئی کی تمام درخواستیں مسترد کردیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہر صورت میں کیس کا فیصلہ 30 دن کے اندر سنایا جائے۔
 عدالت نے اکبر ایس بابر کو کیس کا ریکارڈ دینے سے روکنے اور ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی سے الگ کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔  
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہر صورت 30 روز کے اندر کیس کا فیصلہ کریں۔ 
واضح رہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

فارن فنڈنگ کیس میں الیکش کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی نے تحریک انصاف کی آڈٹ فرم پر سوالات اٹھائے تھے۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق تحریک انصاف نے 31 کروڑ روپے سے زیادہ کے عطیات الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز کے پاس دستیاب سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ اکاؤنٹنگ کے معیار پر پورا نہیں اترتی، پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ڈیکلریشن میں بینک اکاؤنٹس ظاہر نہیں کیے گئے۔
پارٹی نے الیکشن کمیشن کے سامنے 12 بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 53 اکاؤنٹس کو چھپائے رکھا۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق تحریک انصاف کے 31 کروڑ روپے سے زیادہ کے عطیات الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں۔
الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق 2008 سے 2013 تک پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے ظاہر کیے جبکہ سٹیٹ بینک کی تفصیلات کے مطابق اس دوران پی ٹی آئی کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے۔
سکروٹنی کمیٹی کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پارٹی فنڈز سے متعلق الیکشن کمیشن کو غلط معلومات فراہم کیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ’یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے مذکورہ وقت کے دوران پی ٹی آئی اکاؤنٹس کی بینک سٹیٹمنٹ کو ری کنسائل نہیں کیا۔‘

پارٹی نے الیکشن کمیشن کے سامنے 12 بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 53 اکاؤنٹس کو چھپائے رکھا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’2010-2009 میں دو کروڑ پانچ لاکھ 89 ہزار روپے کو ظاہر نہیں کیا گیا، 2011-2010 کے دوران چھ کروڑ 11 لاکھ 85 ہزار روپے ظاہر نہیں کیے گئے جبکہ سال 2012-2011 میں آٹھ کروڑ 58 لاکھ اور 2013-2012 میں ایک 14 کروڑ 50 لاکھ 98 ہزار روپے کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے کیا؟

سنہ 2014  میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے۔
اس درخواست میں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔
 14نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں اور غیر قانونی و بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ڈائریکٹر جنرل لا ونگ اور الیکشن کمیشن کے آڈیٹر جنرل کے افسران پر مشمل ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ 

شیئر: