ڈی جی آئی ایس پی آر کی غیر معمولی پریس کانفرنس، کوئی سوال باقی نہ رہا
ڈی جی آئی ایس پی آر کی غیر معمولی پریس کانفرنس، کوئی سوال باقی نہ رہا
جمعرات 14 اپریل 2022 17:27
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
فوجی ترجمان کے مطابق امریکہ نے اڈے نہیں مانگے تھے اور مانگتا تو فوج کا بھی یہی جواب ہوتا کہ ایبسلوٹلی ناٹ‘ (فوٹو: آئی ایس پی آر)
جمعرات کو اچانک اطلاع ملی کہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار تین بجے پریس کانفرنس کریں گے تو اسی وقت احساس ہوگیا تھا کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں جو سوالات عوام کے ذہنوں میں اُٹھ رہے ہیں ان کا جواب آج ملے گا۔
پریس کانفرنس کے لیے مختص آئی ایس پی آر کا ہال صحافیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہر شخص سراپا سوال تھا۔ ٹھیک تین بج کر پانچ منٹ پر ڈی جی آئی ایس پی آر کمرے میں داخل ہوئے اور تمام صحافیوں کو سلام کیا۔
عام طور پر آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پہلے سکیورٹی صورت حال کے حوالے سے لمبی چوڑی بریفنگ ہوتی ہے اور پھر آخر میں چند سوالات جن میں سے ایک آدھ سیاسی صورت حال پر ہوتا ہے۔ مگر آج پریس کانفرنس کے آغاز پر ہی میجر جنرل بابر افتخار نے واضح کردیا کہ دو دن قبل ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے حوالے سے دو تین منٹ کی بریفنگ ہوگی اور پھر جو سوالات آپ کے ذہن میں ہیں ان کے جوابات دیے جائیں گے۔
یہ سنتے ہی میں نے کاغذ پر تین چار سوالات لکھ لیے کہ موقع ملا تو ان میں سے ایک آدھ کا جواب پوچھ لوں گا۔
مگر سوالات کا آغاز ہوتے ہی جو پہلا سوال میرے ذہن میں تھا وہ ایک اور صحافی نے پوچھ لیا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی اجلاس میں کیا امریکی سازش کا ذکر ہوا تھا؟
اس کا کافی تفصیلی جواب دیتے ہوئے ڈی جی نے بتایا کہ ’عسکری قیادت نے اس اجلاس میں اپنا واضح موقف دیا اور اس کا ذکر بھی اعلامیے میں بھی موجود ہے۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ ’آپ اعلامیے پر غور کریں تو سازش کا ذکر نہیں ملے گا۔‘
اس پر میرے ذہن میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے الفاظ گھوم گئے۔ واقعی اعلامیے میں دھمکی یا امریکی سازش کا ذکر نہیں تھا مگر سابق وزیراعظم عمران خان اپنے جلسوں میں بار بار کہتے ہیں کہ ان کے خلاف امریکہ نے سازش کی اور اپوزیشن اس کا حصہ بن کر تحریک عدم اعتماد لائی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
تاہم ایک سوال یہ تھا کہ اگر امریکی سازش مراسلے سے ثابت نہیں ہوئی تو پھر امریکی سفیر کو بلا کر ڈیمارش کرنے یعنی احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا اور اس کا ذکر اعلامیے میں کیوں تھا؟
جب میں نے یہی سوال پاکستانی فوج کے ترجمان سے پوچھا تو انہوں نے واضح کیا کہ چونکے مراسلے میں غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی جو کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے اس لیے ڈیمارش کا فیصلہ کیا گیا اور ڈیمارش کا مطلب یہ نہیں کہ سازش ہوئی۔
وزارت خارجہ کے ماہرین کے مطابق اندرونی معاملات میں مداخلت کی شکایت اکثر ممالک ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ گذشتہ سال امریکی گلوکارہ ریحانا نے انڈیا میں مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے حق میں ٹویٹ کیا تھا تو انڈیا نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے تھے جس کے جواب میں سابق وزیراعظم عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا تو انہوں نے واضح کیا کہ یہ بات سابق وزیراعظم نے ایک انٹرویو میں رپورٹر کو کہی تھی مگر امریکہ نے اڈے نہیں مانگے تھے اور مانگتا تو پاکستانی فوج کا بھی یہی جواب ہوتا کہ ایبسلوٹلی ناٹ۔
پریس کانفرنس میں صحافیوں نے درجن سے زائد سوالات کیے اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے تحمل سے ہر ایک کا جواب دیا۔ سیاسی امور میں عدم مداخلت کا عزم ، آرمی چیف کی ایکسٹینشن نہ لینے کا ارادہ، حلف برادری میں عدم شرکت کی وجہ، پاکستانی فوج کے خلاف ٹرینڈز چلانے میں غیر ملکی مداخلت، غرض ایک ایک سوال ایک ایک ہیڈ لائن بنا رہا تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ کون سی کون سی خبر پہلی سے زیادہ بڑی ہے۔
آخر میں صحافیوں کے سوالات ختم ہوگئے اور تقریباً تمام کے تسلی بخش جواب مل گئے تو ڈی جی نے پریس کانفرنس ختم کی۔
باہر نکلتے ہوئے صحافی ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے اس سے زیادہ اہم پریس کانفرنس اس پورے سال میں نہیں ہوئی۔ اس کی خبریں شاید کئی ہفتوں تک ختم نہ ہوں۔