ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس تشدد کو کس چیز نے ہوا دی۔ مسجد کے انتظامات کرنے والے ادارے نے کہا ہے کہ اسرائیلی پولیس سورج طلوع ہونے سے قبل زبردستی مسجد میں داخل ہوئی۔ اس وقت ہزاروں افراد عبادت کے لیے مسجد میں موجود تھے۔
انٹرنیٹ پر وائرل ویڈیوز میں فلسطینیوں کو پتھر پھینکتے ہوئے جبکہ اسرائیلی پولیس کو آنسو گیس کے شیل اور سٹن گرنیڈ کا استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
بعض ویڈیو میں عبادت گزار آنسو گیس کے دھوئیں سے بچنے کے لیے مسجد کے اندر پناہ کی تلاش میں بھاگتے نظر آتے ہیں۔
فلسطین کی ریڈ کریسنٹ ایمرجنسی سروس نے کہا ہے کہ انہوں نے 67 زخمی افراد کو ہسپتالوں میں پہنچایا ہے۔
مسجد کی انتظامیہ نے بتایا کہ ’مسجد کے ایک محافظ کی آنکھ میں ربڑ کی گولی ماری گئی ہے۔‘
اسرائیلی حکام کی جانب سے اس بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ یا بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھی جاتی ہے۔ ایک پہاڑی کی چوٹی پر تعمیر کی گئی یہ مسجد فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان دہائیوں سے تنازعے کا باعث بنی ہوئی ہے۔
رمضان کے مہینے کی وجہ سے آج مسجد الاقصیٰ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے دسیوں ہزار مسلمانوں کے جمع ہونے کی توقع کی جا رہی تھی۔
گزشتہ برس رمضان میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں اور جھڑپوں کے بعد اسرائیل اور غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والی اسلامی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان 11 دن تک لڑائی جاری رہی تھی۔
اسرائیل نے رمضان سے قبل تناؤ کی کیفیت ختم کرنے کے اقدامات کے طور پر پابندیاں ختم کی تھیں لیکن حملوں اور فوج کے چھاپوں کی وجہ سے فسادات کی نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں حماس اور غزہ کے دیگر عسکریت پسند گروپوں نے فلسطینیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ جمعے کو مسجد اقصیٰ میں پہنچیں۔
خیال رہے کہ فلسطینیوں کو طویل عرصے سے یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اسرائیل ان کے مقدس مقام (الاقصیٰ) پر قبضے یا اسے تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تاہم اسرائیلی حکام کا موقف ہے کہ وہ صورت حال کو ’جوں کے توں‘ رکھنے پر کاربند ہے لیکن حالیہ برسوں میں قوم پرست اور مذہبی یہودیوں کی بڑی تعداد نے پولیس کی معیت میں مسجد الاقصیٰ کے دورے کیے ہیں۔