پاکستان کا صوبہ پنجاب عملی طور پر یکم اپریل سے وزیر اعلیٰ کے بغیر ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفی کے بعد تحریک انصاف کی صوبے میں حکومت ختم ہو چکی ہے۔ جبکہ کئی طرح کے پاپڑ بیلنے کے بعد ن لیگ کے حمزہ شہباز صوبے کے نئے وزیر اعلی منتخب ہو چکے ہیں۔
16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے ایک پرتشدد اجلاس میں حمزہ شہباز نئے وزیراعلیٰ تو منتخب ہو گئے البتہ اس کے بعد وہ ایک نئے گرداب میں پھنس گئے جب گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔
نئے وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھاتے ہی صوبے کی انتظامی مشینری کو بھی ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک طرف نو منتخب وزیراعلیٰ کو منصب کے اعتبار سے سکیورٹی اور پروٹوکول مہیا تو کیا گیا لیکن دوسری طرف حلف نہ اٹھا سکنے کے باعث وزیراعلیٰ کے دفتر میں ابھی تک عثمان بزدار ہی براجمان ہیں۔
مزید پڑھیں
-
دس، پندرہ ہزار لوگ تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں: چیف جسٹسNode ID: 662246
-
چیف الیکشن کمشنر کا نام اسٹیبلشمنٹ نے تجویز کیا تھا: عمران خانNode ID: 662286
آئینی طور پر نئے وزیر اعلیٰ کے حلف لینے کے بعد ہی سابق وزیراعلیٰ دفتر کا چارج ان کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال میں پیر کے روز اس وقت اضافہ ہو گیا جب گورنر پنجاب عمر چیمہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو خط لکھ ایک قانونی رائے مانگی ہے کہ عثمان بزدار کا استعفٰی وزیراعظم کے نام تھا گورنر کے نام نہیں اور وہ سابق گورنر نے منظور کر لیا کیا وہ اس غیر قانونی عمل کو واپس کر سکتے ہیں؟
اسی طرح انہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ سیکریٹری اسمبلی کی رپورٹ کے مطابق نئے وزیر اعلیٰ کا چناؤ قانون کے منافی ہوا ہے کیا وہ اسے بھی رد کر سکتے ہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل نے ابھی تک ان قانونی نکات پر جواب تو نہیں دیا ہے البتہ اس غیر معمولی تاخیر پر مسلم لیگ ن نے ایک دفعہ پھر عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
