Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دس، پندرہ ہزار لوگ تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس کے مطابق منحرف اراکین پر آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا۔ فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ دس سے پندرہ ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو عدالت فیصلے کیوں دے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ابھی تک نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی، اگر مناسب سمجھیں تو نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کریں۔  
چیف جسٹس نے کہا کہ ’صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے۔ نئے اٹارنی جنرل نے اگر اس میں کچھ اضافہ کرنا ہوگا تو ہم ان کو بھی موقع دیں گے۔ میرے خیال میں ہمیں صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بھی دائر کی ہے۔‘ 
عدالت میں موجود تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر فریقین کو نوٹس کر دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’درخواست جس ایشو سے متعلق ہے اس پر عدالت میں بات ہو رہی ہے۔ جن کو نوٹس کرنا ہے وہ تمام فریقین کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ یہ آئینی بحث کا مقدمہ ہے۔ صدراتی ریفرنس آیا ہے اس کو چلائیں گے۔‘  
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’پیسے لے کر ضمیر نہیں بیچا جاسکتا ۔ پیسے دے کر تو اراکین اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جاسکتی ہے۔ پنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ تمام سٹیک ہولڈر عدالت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اب تو منحرف اراکین عوام میں بھی نہیں جاسکتے۔‘ 
اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟ آج کل آسان طریقہ ہے دس ہزار بندے جمع کرو اور کہو میں نہیں مانتا۔‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے 10 اپریل کو عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ’پارلیمان نے تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا۔ پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا۔ پارلیمنٹ موجود ہے دوبارہ اس کے سامنے پیش کر دیں۔ عدالت کے سر پر کیوں ڈالا جارہا ہے؟‘ 
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ’آئین کی تشریح کرنا عدالت کا ہی کام ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں۔‘  
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’دس سے پندرہ ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں؟ ایسے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں۔ عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے۔ عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات میں پڑے؟‘  
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بینچ کو بتایا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تاحیات نااہلی ہوئی تو آرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائے گی جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں ہے۔  
جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ’آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے۔‘ 

آرٹیکل 63 اے کے کیس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی بابر اعوان کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس نے کہا کہ ’پارلیمانی جمہوریت کی ایک بیناد سیاسی جماعت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چار صورتوں میں آرٹیکل 63 میں تحفظ دیا گیا ہے۔ ضیاء الحق نے پارٹی سے انحراف پر پابندی کی شق آئین سے نکال دی تھی۔ ہارس ٹریڈنگ ہر فیصلے آئے تو 1998 آئین میں ترمیم کی گئی۔ 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔‘  
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’آئین کی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں ہے۔ کئی لوگ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں۔ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا۔ صدراتی ریفرنس کے مطابق منحرف اراکین پر آرٹیکل 62 ون کا اطلاق ہونا چاہیے۔‘  
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے واضح کیا کہ ’عدالت تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والا یا اپنی خوشی پر جائے گا یا قیمت ادا کرنی ہو گی۔‘  
دوران سماعت بابر اعوان نے کہا کہ ’اس وقت صرف وزیر اعظم ہیں کابینہ نہیں۔ ملک میں 8 دن سے کوئی حکومت نہیں۔ نہ اٹارنی جنرل ہے نہ وزیر قانون ہے۔ حکومت کی جانب سے کون دفاع کرے گا۔‘  
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ’ ریفرنس پی ٹی آئی حکومت کا نہیں صدر پاکستان کا تھا۔ صدر پاکستان کا ریفرنس برقرار ہے ہر صورت سنیں گے۔ عدالت آرٹیکل 63  اے پر  اپنی رائے بھی دے گی۔‘ 
چیف جسٹس نے بابر اعوان سے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو نوٹس ریفرنس میں کیا تھا ابھی آپ کی درخواست کی باری نہیں آئی۔ کیا آپ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل اپنائیں گے؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ خالد جاوید خان کے دلائل کسی صورت نہیں اپناؤں گا۔ خالد جاوید خان نے دلائل میں قلابازیاں کھائی تھیں۔ صدارتی ریفرنس پر کل تک کا وقت دیں کل دلائل دوں گا۔‘  
بی این پی مینگل کے وکیل مصطفی احد رمدے نے کہا کہ ’صدر نے ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنے کا کہا ہے۔ کیا عدالتی اختیارات میں کمی کی آئینی ترمیم پر پارٹی پالیسی سے اختلاف جرم ہو گا۔‘ 
جسٹس منیب اختر  نے کہا کہ ’آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں۔ مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے۔‘ مصطفی رمدے نے کہا کہ ’مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہو سکتا ہے؟ پارٹی سربراہی کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے۔‘  
جسٹس مینب اختر نے کہا کہ ’ایسی بات سے اپ پارلیمانی جہموریت کی نفی کررہے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف ہے تو الگ ہو جائیں گے۔ ضمنی الیکشن آزاد حثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے۔ آپ چاہتے ہیں عدالت قرار دے کہہ عدم اعتماد میں ہر رکن کو آزادانہ ووٹ دینے کا حق ہے۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کو ارٹیکل 62 اور 63 کیساتھ تو ملا کر ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ ‘  
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’جیسے آئین نے منحرف قرار دیا ہے، اپ اسے معزز کیسے بنارہے ہیں۔‘   
دوران سماعت چیف جسٹس نے رات بارپ بجے عدالتوں کے کھولے جانے سے متعلق اعتراض کا جواب بھی دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں۔ آئین کے محافظ ہیں۔  یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے۔ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔‘  
ایک موقع پر چیف جسٹس اور بابر اعوان کے درمیان مکالمہ ہوا اور چیف جسٹس نے کہا کہ بابر اعوان صاحب ’سینیٹ الیکشن میں آڈیو ویڈیو سامنے آنے کے بعد آپ کے دو ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن گئے لیکن آپ کہ جماعت نہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی جماعت آڈیو وڈیو معاملے پر سنجیدہ نہیں تھی۔  ہمیں کہا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس لیں۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لیے جانے کے طریقہ کار طے کر چکا ہے۔‘  
کیس کی مزید سماعت منگل دن ایک بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل بابر اعوان صاحب کو سنیں گے۔ 

شیئر: