Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی کی ٹوٹنے والی تھی کہ شوہر نے مضبوطی سے تھام لیا، نگہت جہاں

والدہ نے ہمیں ہمیشہ سکھایا کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا نہیں بلکہ زندگی کا مقصد اور شعور حاصل کرنا ہے، ہماری نالائقی ہے کہ ہم سبق سیکھنے کے موڈ میں نہیں، اردونیوز کو انٹرویو

 زینت شکیل۔ جدہ

حسن خلق اس فضیلت کانام ہے جو انسانی رویے میں پوشیدہ ہوتا ہے جس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ طارق نجم الدین اور ان کی اہلیہ نگہت جہاں سے اس ہفتے ہوا کے دوش پر ملاقات ہوئی تو یہی نکتہ زیر بحث رہا کہ لوگ آج کل اخلاقیات کا دامن کیوں چھوڑ ے دے رہے ہیں۔ عام لوگوں نے سچائی اور ہمدردی سے دوری اختیار کرلی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا او رخاص طور پر سوشل سائنس نے خود کو حدود و قیود سے مبرا سمجھ لیا ہے۔ نگہت جہاں جنہوں نے سوشیالوجی میں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ بتا رہی تھیں کہ معاشرے میں رونما ہونے والے تمام حالات و واقعات ، نفسیات انسانی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انسانی زندگی میں تین باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں، بچپن کی تعلیم و تربیت ، ماحول اور موروثی خوبیاں۔ مجموعی طور پر انسان بہت جلد باز ہو گیا ہے۔ کسی چیز میں ٹھہراؤ نظر نہیں آتا۔ جہاں انسان رک کر ٹھہر کر سوچ سمجھ کر مقصد حیات کو جاننے کے لئے کچھ وقت ہی نہیں نکال پا رہا۔ ضروری ہے کہ تدبر کرے اور اس دنیا میں آنے کا مقصد جان لے۔ جب ہم مقصد حیات پر کاربند ہو جائیں گے تو دنیا کی یہ بھاگ دوڑ ختم ہو جائے گی کیونکہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ یہ ہمارا عارضی ٹھکانہ ہے لیکن پھر بھی دانشمندی کا ثبوت نہیں دے رہے۔

سماجیات دراصل معاشیات اور معاشی اصطلاحات پر منحصر ہوتا ہے جس قوم نے اقتصادی معاملات پر دسترس رکھی وہ اپنی ریاست کی بہبود کیلئے بہترین کام انجام دے رہے ہیں۔ جہاں بنیادی ضرورت پوری ہو وہاں لوگوں کے اذہان بھی نئی جہت پر کام کے لائق رہتے ہیں۔ معاشرے کی بہتری کیلئے انہوں نے سب سے زیادہ خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہماری والدہ مشتری خاتون نے ہمیشہ ہمیں سکھایا کہ تعلیم کا حصول دراصل رزق کمانے کیلئے نہیں ہے بلکہ زندگی کے مقصد کو سمجھنا اور شعور حاصل کرنا ہے۔

جنہیں یہ معلوم ہو کہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے او ربڑی بڑی قومیں جن کی معیشت آج کے مقابلے میں بھی زیادہ مضبوط تھی۔ جب بستی کی بستی تباہ کر دی گئی تو آئندہ کیلئے عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے۔ ہماری نالائقی یہ ہے کہ ہم سبق سیکھنے کے موڈ میں ہی نہیں ہیں چند ایکڑ زمین کا حصول ، مہنگی گاڑی اور ڈگری کے بعد دنیا بھر کی سیر کے بعد جب ریٹائر ہو جائیںتو ایک پرسکون جگہ رہائش اختیار کرلیں اور دنیا یہی سمجھتی رہے کہ کیا بھرپور کامیاب زندگی گزاری ہے لیکن آخرت کی کہاں تک تیاری ہوئی ہے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے اس کی کوئی فکر موجودہ دور میں اکثریت کو نہیں ہے۔ اگر واقعی ہمیں آخرت کی فکر ہو جائے تو دنیا ہمارے سامنے معمولی چیز بن جائے۔

والدین کی ذمہ داری دراصل بچوں کی درست خطوط پر تربیت ہے اور یہاں یہی کمی پائی جا رہی ہے۔ ماں کو خاص طور پر بچوں کو اس بات کی طرف راغب کرنا چاہئے کہ حلال طریقے سے مال کمانا اور دنیا کی آسائش حاصل کرنا ممنوع نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ آخرت کی تیاری کرتے رہنا ہی اصل کامیابی کا راستہ ہے۔ اپنے والد محمد ضیاء الدین ملک کا ذکر کرتے ہوئے نگہت جہاں نے کہا کہ ہمارے والد انڈس جوٹ مل میں اہم فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہے اور ہمیشہ ایمانداری کا درس ہمیں دیا۔ خاندان میں مل جل کر رہنا اور جیسا کہ پورا خاندان ایک جسم ہو کہ اگر ایک فرد بیمار ہے تو اس تکلیف کا احساس سب افراد کو ہو گا او رجب سب صحت مند خوشحال ہوں تو ہر ایک کو خوشی و مسرت حاصل ہو گی۔ انہوں نے اپنی ہمشیرہ ثروت جہاں کے بارے میں بتایا کہ بہت محبت کرنے والی اور خیال رکھنے والی ہماری یہ بہن ہم سب کا بے حد خیال رکھتی ہیں۔ بیچلر ڈگری کے بعد سسرال سدھار گئیں او راب بہترین سگھڑ خاتون کے طور پر ہمارے سامنے مثال بنی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں مقیم ہمشیرہ نزہت جہاں کے بارے میں بڑی خوشی سے بتایا کہ انہوں نے پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے میں خوب محنت کی میں نے بھی بہت مختلف شوخ رنگوں سے مزین پاکستانی کڑھائی کے فیشن ایبل کپڑے اور شادی بیاہ کے موقع پر استعمال ہونے والے بھاری کڑھائی کے ملبوسات کی تیاری میں خوب دلچسپی لی لیکن اب ان کاموں سے کچھ دوری اختیار کر لی ہے ایک تو یہ کہ اور لوگ بھی یہ سب کام خوب دلچسپی سے کر رہے ہیں تو اب پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ اپنی سب سے چھوٹی ہمشیرہ عظمت جہاں کے بارے میں ذکر بہت محبت و شوق سے کیا کہ ہماری یہ بہنیں بہت مہمان نواز ہیں۔ مزے مزے کی چیزیں بناتی رہتی ہیں۔ سب کی خیریت کی فکر انہیں رہتی ہے اور خیال بھی سب کا بہت رکھتی ہیں۔ بڑے بھائی رضا الرحمان اور چھوٹے بھائی فدا الرحمان دونوں اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پھرجاب کے سلسلے میں بیرون ملک رہائش اختیار کر چکے ہیں۔

تمام خاندان سالانہ ملاقات کا سلسلہ رکھے ہوئے ہیں۔ نگہت جہاں کے شوہر طارق نجم الدین کراچی یونیورسٹی سے جغرافیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی جگہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے او رچونکہ اس شعبے میں فیلڈ ورک او ر فیلڈ ٹرپ ضروری ہے تو اس سلسلے میں کئی جگہوں کا سفر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی لینڈ اسکیپ پاکستان کے اتنے خوبصورت ہیں کہ بیرون ملک شائد ہی کوئی اتنی خوبصورت جگہ ہو۔ پاکستان ہر لحاظ سے قدرتی وسائل اور فطرت کی گوناگوں خوبصورتی سے مالا مال ہے۔ طارق نجم الدین نے اس طرف توجہ دلائی کہ جہاں جس علاقے میں فطرت نے جا بجا حسن بکھیرا ہے وہاں لوگوں کیلئے سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ اس طرح ہماری مہمان نوازی اور سفری سہولت کے ساتھ رہائشی اور ثقافتی اقدار کو سیاح کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ طارق نجم الدین کاکہنا ہے کہ ان کی بیگم نگہت جہاں بہت ہمت و حوصلے والی ہیں کسی حالت میں حد سے زیادہ نہیں گھبراتی ہیں بلکہ مالک حقیقی سے مدد مانگتی ہیں۔ بیماری سے صحت مندی کی طرف تیزی سے آنا بھی دراصل خود پر او رمالک حقیقی پر مصمم ارادہ سے ہی ممکن ہے۔ نگہت جہا ںکی بڑی صاحبزادی انعم طارق نے ڈاؤ میڈیکل سے میڈیسن مکمل کرنے کے بعد ہاؤس جاب مکمل کیا اور والدین نے انہیں محمد فیضان ملک کے ساتھ رحضت کیا چونکہ فیضان خود انجینیئر ہیں ا سلئے مصروف رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ بھی انسانیت کی خدمت کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سسرال میںقدردانی ملی اور انہیں ہر نئے رشتے نے بھرپور پذیرائی بخشی۔

دوسری صاحبزادی بسمہ بھی میڈیکل کالج کے سیکنڈ پروفیشنل میں ہیں جبکہ سب سے چھوٹی لاڈلی ھبہ نے بھی سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں گھر بھر کی لاڈلی ہوں تو سب سے کم کام مجھے کرنا پڑا۔ امی جان کا کہنا ہے گھر کے کام کاج تھوڑے تھوڑے کر کے سیکھ ہی جاؤگی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اخلاق سیکھو اور لوگوں سے اچھا سلوک کرو تکلیف میں مبتلا لوگوں کی تکلیف کو دور کرنے میں ان کی مدد کرو۔ نگہت جہاں نے بتایا کہ ہماری بڑی بھابھی بہترین انٹریئریرڈیکوریٹر ہیں۔ گھر کی سجاوٹ ان کی اس خوبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چھوٹی بھابھی مہمان نوازی میں بہت آگے ہیں۔ ہمیشہ لوگوں کی دعوت میں تعریف سمیٹتی ہیں۔ پاکستان سے باہر رہنے والوں کیلئے بہت اچھا دن ہوتا ہے جب تمام فیملی خاص موقع پر جمع ہو ں اور پھر دور رہنے والوں سے نیٹ کے ذریعہ آدھی ملاقات بھی ہو جائے۔ محترمہ نگہت جہاں نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ مشکل وقت میں لوگ گھبرا جاتے ہیں جیسا کہ سخت بیماری کا اگر سامنا کرنا پڑے تو لیکن میرے بیماری میں میرے والد کی دوڑ بھاگ ہاسپٹل کا چکر اور طارق صاحب کی دن رات کی خدمت کہ میں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ مجھے آج بھی یہ بیتا سال معجزہ ہی لگتا ہے۔ اس وقت میرے شوہر میرے ساتھ کھڑے رہے ہر طرح اس مشکل وقت سے نکلنے میں میری مدد کی۔ یہ بات میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گی کہ جب زندگی کی ڈور ٹوٹنے کے قریب جا پہنچی تھی تو کسی نے مضبوطی سے میرے ہاتھ تھام لئے تھے اور مالک حقیقی سے میرے ساتھ کی دعا او رتمنا کی تھی۔

شیئر: